متحدہ عرب امارات میں جہاں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو لے کر کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہیں اب اماراتی حکومت نے غیر مسلم عبادت گاہوں سے متعلق سخت پالیسیز کے حوالے سے بھی واضح کر دیا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے واضح ہدایات کی گئی ہیں کہ مقامی طور پر انتظامیہ کی جانب سے بنائے گئے قوانین کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ امن و امان کی صورتحال اور سماجی بہبود کو مزید تقویت ملے۔
اماراتی حکومت کی جانب سے جاری قوانین کے مطابق کسی بھی مذہب فرقے یا نظریے سے تعلق رکھنے والے افراد کی توہین نہیں کی جا سکتی، جبکہ مذہبی عبادت گاہ کو رہائش کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب قوانین کے مطابق ریاست کے بیرونی اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جائے گی ساتھ ہی ساتھ سیاست، قوانین اور امن و امان کے منافی اقدامات سے گریز کیا جائے۔
دوسری جانب مذہب، رنگ و نسل سمیت دیگر اشتعال انگیزی سے متعلق اقدامات سے گریز کیا جائے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے جاری قوانین میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ مذہبی رسومات اور عبادات مذہبی عبادت گاہ کی حد تک ہی کی جائیں۔
دوسری جانب ایسی تمام میٹنگز اور کانفرنسز کے حوالے سے بھی پابندی لگائی گئی ہے جس میں دیگر ممالک کی شرکت شامل ہو جبکہ عبادت گاہوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز اس کو نجی طور پر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
مذہبی عبادت گاہوں کے لیے چندہ سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نہیں مانگا جا سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی قانونی کاروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے متحدہ عرب امارات کے فیڈرل لاء کی سیکشن (9) 2023 کے مطابق غیر مسلموں کو ان پابندیوں کے خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خلیج ٹائمز اس کے مطابق یہ جرمانے ایک لاکھ درہم سے لے کر تیس لاکھ درہم تک ہو سکتے ہیں، جو کہ پاکستانی تقریبا 22 کروڑ سے زائد کی رقم بنتی ہے۔