ایک طرف غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مزاکرات گھسٹتے ہوئے انداز سے جاری ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوجی غزہ کے مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہی۔ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 33 فلسطینی شہید ہوگئے۔ درجنوں زخمی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری آپریشن کا بنیادی مقصد حماس کی قوت مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ رفح میں بھی زمینی آپریشن کیا جائے۔ اس حوالے سے صہیونی فوج کی تیاریاں جاری ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ مستقل جنگ بندی کا معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس کی دفاعی قوت مکمل طور پر ختم کیے جانے تک آپریشن جاری رکھا جائے گا۔
اکتوبر میں غزہ کے طول و ارض میں اسرائیلی فوج کی بمباری کے بعد پہلی بار شمالی غزہ میں بیت حنون کراسنگ کھول دی گئی ہے۔ اردن سے امدادی سامان لے کر 31 ٹرکوں کا قافلہ غزہ میں داخل ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ تک امداد کی رسائی کے بیشتر راستے بھی بند کر رکھے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کئی بار خبردار کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کی شدید قلت ہے اور اگر معاملات کو درست کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تو مئی کے آخر یا جون کے اوائل میں وہاں قحط کی کیفیت وارد ہوچکی ہوگی۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے دی جانے والی امداد غزہ کے باشندوں تک پہنچانے کے لیے فضائی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ امدادی سامان کے بنڈل گرائے جاتے رہے ہیں۔ ان بنڈل کی زد میں آکر بھی متعدد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ امداد وصول کرنے کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر بھی اسرائیل نے بمباری کی ہے جس سے متعدد شہادتیں واقع ہوئی ہیں۔