متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ جس طرح پنجاب حکومت اپنے دارالخلافہ لاہور کے ساتھ کرتی ہے، جیسا سلوک خیبرپختونخوا حکومت پشاور کے ساتھ کرتی ہے، کراچی بھی ویسے ہی سلوک کا حق دار ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تمام رکاوٹوں اور محرومیوں کے باوجود کراچی پورے پاکستان کا 60 سے 65 فیصد ٹیکس دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس جس دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی، اس دوران باقاعدہ منظم طریقے سے کراچی کے حالات خراب کئے گئے اسے تباہ کیا گیا اور اس کے وسائل کو بے پناہ لوٹا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ اس کے مسائل نہیں اس کے وسائل ہیں۔
سپریم کورٹ کے کراچی سے تجاوزات ہٹانے کے حکم پر بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سکیورٹی کے سارے مسائل کیا محفوظ ترین علاقوں میں ہی ہیں جہاں اسمبلیاں، وزیراعلیٰ ہاؤس ہیں جہاں قابض حکمران رہتے ہیں؟ سیف سٹی کا پلان بھی وہیں تیار ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں جرائم ہوتے ہیں وہاں یہ منصوبہ تیار کریں، آپ عوام کے بجائے خود کو ہی محفوظ کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جاپانیوں پر جو حملہ ہوا، وہ اس جگہ پر تو نہیں ہوا جہاں رکاوٹیں لگائی جا رہی ہیں، وہ تو لانڈھی میں ہوا جس پر آپ کی توجہ ہی نہیں ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت کو پچھلے 15 سال میں کراچی سے 22 ہزار ارب روپے ملے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے امن و امان کا مسئلہ یہی ہے کہ چور اور سپاہی دونوں کا تعلق کراچی سے نہیں ہے، قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے دونوں کا تعلق کراچی سے نہیں ہے اور ان کے درمیان رشتے اور رابطے نظر آتے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کراچی میں 80 فیصد سرکاری نوکریاں جعلی ڈومیسائل کے ساتھ دی گئی ہیں اور پولیس میں تو آپ کو وہ بھی نہیں ملیں گے، سندھ پولیس میں تو کچے کے ڈاکو آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1992 کا آپریشن کچے کے ڈاکوؤں کیلئے شروع ہوا اور ہمارے خلاف ہوگیا، کچوں کے بجائے پکوں پر ہوگیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کے ساتھ ساتھ کراچی بدحالی کیس بھی چلائے اور معلوم کرے کہ شہر کی بدحالی کی وجہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی معمولی بستی لیاقت آباد پورے لاہور سے زیادہ ٹیکس دے رہی ہے، اور ٹیکس کراچی تو چھوڑیں لاڑکانہ پر بھی خرچ نہیں ہورہا، اس سے تو دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کراچی والے ٹیکس بھی دیں، بدمعاش بھی کہلائیں ، ملک دشمن اور دہشتگرد بھی کہلائیں۔
کراچی میں آئے دن ڈکیتیوں اور دن دہاڑے ڈکیتی مزاحمت پر لوگوں کے مرنے پر ان کا کہنا تھا کہ جب پشاور میں پشاور کی پولیس ہے، لاہور میں لاہور کی پولیس ہے، لاڑکانہ میں لاڑکانہ کی پولیس ہے تو کراچی میں کہیں اور کی پولیس کیوں ہے؟ مقامی لوگ ہوں گے تو کم سے کم ڈاکووں کو پالیں گے تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب عید ہوتی ہے تو کراچی کے خالی سگنلز پر صرف بتیاں جلتی بجھتی ہیں، پولیس والے سارے اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ کو وزیراعظم کا سیاسی مشیر مقرر کیا جانا حکومت کیلئے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں اہم ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی تو ایک سیاسی جماعت ہے تو پھر اداروں سے بات کیوں کرنے کا کہہ رہی ہے، پی ٹی آئی انکار کرے اور کہے کہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات کریں گے۔