Aaj Logo

شائع 30 اپريل 2024 07:02pm

پنجاب حکومت سرکاری گندم پالیسی پر ایوان کو مطمئن نہ کر سکی

پنجاب اسمبلی میں حکومت ایوان کو سرکاری گندم پالیسی پر مطمئن نہ کر سکی، وزیر خوارک بلال یاسین نے ایک بار پھر درآمد شدہ گندم کے وافر ذخائر کو بحران کی وجہ قرار دے دیا جبکہ اپوزیشن نے گندم خریداری میں تاخیر پر احتجاج کیا جس پر اسپیکر نے اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔

پنجاب اسمبلی کے 3 گھنٹے 27 منٹ کی تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں اسپیکر ملک احمد خان نے رولز معطل کرکے گندم پر بحث کروائی۔

صوبائی وزیر خوارک بلال یاسین نے ایوان کو بتایا کہ گندم کی امپورٹ کے باعث پنجاب حکومت کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑا رہا ہے۔

اپوزیشن اراکین نے گندم پر بحث کی اجازت نہ ملنے پر ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔

گندم کی امپورٹ کے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بچھر نے کہا کہ حکومت کسانوں کو ریلیف دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔

اجلاس میں اپوزیشن لیڈر نے میاں اسلم اقبال کو بحفاظت ایوان میں لانے یا ویڈیو لنک کے ذریعے حلف لینے کی درخواست کی جو اسپیکر نے مسترد کردی۔

بعدازاں ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

نئی گندم پالیسی: پنجاب اسمبلی اجلاس دوبارہ بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع

دوسری جانب پنجاب میں گندم کی خریداری کے معاملے پر اپوزیشن نے ایوان میں نئی گندم پالیسی پیش کیے بغیر اجلاس ملتوی کیے جانے پر پنجاب اسمبلی اجلاس دوبارہ بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروا دی۔

اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر کے مطابق پنجاب حکومت نئی گندم پالیسی پر اراکین اسمبلی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے گندم خریداری کمیٹی قائم کردی، پرانی پالیسی مسترد

حکومت نے ایوان میں گندم کی نئی پالیسی پیش کی اور نہ ہی حکومت کسانوں سے گندم خرید رہی ہے۔

وزیر خوراک بلال یاسین نے بھی ایوان میں گندم پالیسی کے نام پر خانہ پری کے لیے محض ایک بیان دیا اور اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد نے وزیر خوراک کو راہِ فرار دینے کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔

گندم خریداری کا بحران برقرار، سبسڈی تجاویز آگے نہ بڑھ سکیں

ملک احمد خان نے کہا کہ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے ریکوزیشن اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔

Read Comments