ملک بھر میں آئندہ 4 سال کے لیے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف منگل کو تعلیمی ایمرجنسی کا باضابطہ اعلان کریں گے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ ہوگا۔
اس سلسلے میں وفاقی وزارت تعلیم کے زیرانتظام تعلیمی ایمرجنسی نفاذ کی کانفرنس کل ہو گی۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت کانفرنس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزرائے تعلیم شرکت کریں گے۔
وزیراعظم کی ملائیشیا کے تجارتی اور کاروباری وفد کو دورہ پاکستان کی دعوت
تعلیمی بجٹ کو بھی صفر اعشاریہ پانچ سے بڑھا کر آئندہ 4 سال میں 5 فیصد کرنے کا ہدف ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں 2 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، 4 سال میں یہ تعداد کم کرکے 90 لاکھ تک لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ سائنس یہ کہتی ہے کہ تعمیر و ترقی کی دوڑ میں ایک ارب لوگ غیر ضروری نا ہوجائیں، اگر ہم آئینے کے سامنے کھڑے ہوں گے تو یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
رہنما ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ لہذا تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے اور ہر جگہ کو تعلیم سے بھر دینا چاہیے۔
وزیراعظم اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے گیمبیا جائیں گے
یاد رہے کہ رواں سال کے شروع میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 2 کروڑ 62 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی یونیسکو کے تعاون سے 2021 اور 2022 کے ڈیٹا پر تیار رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا نجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ، سندھ میں 76 لاکھ، خیبرپختونخوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور اسلام آباد میں 80 ہزار بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسکول جانے کی عمر کے انتالیس فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔
ہائر سیکنڈری سطح پر 62 فیصد بچے، میٹرک سطح پر 40 فیصد، مڈل سطح پر 30 فیصد اور پرائمری سطح پر 36 فیصد بجے اسکول سے باہر ہیں۔