جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کا عندیہ دے دیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے کئے گئے خطاب میں کہا کہ جو آپ کے ماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں، آج ہم ان کے حکم پر چل رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے پاس نمبرز ہیں تو نواز، شہباز شریف اور بلاول اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کریں۔
پیر کو سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی پہنچے، جہاں صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی سے مذاکرات کر رہے ہیں؟
جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن انکار بھی نہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کا پی ٹی آئی کو ایک بار پھر اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مشورہ
واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے چند ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے لگ رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
جمیعت علماء اسلام اور پی ٹی آئی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف قائم اتحاد میں بھی شامل ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر اسپیکر صاحب نے وقت دیا تو بات کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان ایوان میں پہنچے تو چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور اسد قیصر نے نشست پر جاکر ان ملاقات کی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حلف برداری کے بعد پہلی مرتبہ ایوان میں حاضر ہو رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، میں ان کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، مسئلہ جلسہ کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ملک کہاں کھڑا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ یہ عوام کی پارلیمان ہے یا کسی اور کی ترتیب دی ہوئی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے یہ ملک برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں سے حاصل کیا، پاکستان کے قیام میں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں، سوچا جائے کہ آج عوام کہاں کھڑے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہے، کیا وجہ ہے کہ ہماری عوامی نمائندگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں حکومتیں سازشوں کی بنیار پر بنتی اور ٹوٹتی تھیں، بیوروکریٹس وزیراعظم کا فیصلہ کرتے تھے،ایک صدر مملکت نے اپنے دور میں پانچ وزیراعظم تبدیل کیے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی جدوجہد کو ساتھ عام آدمی کو ووٹ کا حق ملا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قائد اعظم کا پاکستان آج کہاں ہے؟ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، ہم کب تک ان کے دروازوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتے رہیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ شاید میں ایسی باتیں کروں جو آپ سمجھیں کہ تجاوز کررہا ہوں، ہماری معلومات یہ ہیں کہ اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں، کون ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ پارلیمان کہے گا؟ کس طرح ہمارے ضمیر یہاں بیٹھنے پر مطمئن ہوں گے، جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے، ہم نے ہر مرحلے پر سمجھوتا کیا ہے، ہم نے اپنی جمہوریت بیچی ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آقا بنائے ہیں، جو آپ کے ماتحت ہونے چاہئے تھے وہ آج ہمارے آقا ہیں، آج ہم ان کے حکم پر چل رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہاں پر ایک قانون پاس نہیں کرسکتے، اسپیکر صاحب آپ کی پوری جماعت گواہ ہے کہ ہم نے ایک اجلاس میں ایک قانون سازی پر بات کی، اس قانون سازی کیلئے وزیرقانون کی نگرانی میں کمیٹی بنی، دینی مدارس اور حکومت کے درمیان اس مسودے پر اتفاق ہوگیا، وہ مسودہ ڈرتے ڈرتے اسمبلی میں آیا لیکن اسے ڈراپ کرنا پڑا، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بنا سکتے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ہندوستان اور ہم ایک ہی دن آزاد ہوئے، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور قائد اعظم نے ایک ہی دن حلف اٹھایا، آج بھارت دنیا کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ گھومتے پھرتے یہی بات آئے گی کہ سیاستدان اور حکومت ذمہ دار ہے، دیوار کے پیچھے سے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں، جن کے ہاتھ میں ہماری ڈوریں ہیں، فیصلہ وہ کریں اور منہ ہمارا کالا ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک کو جمود کا شکار بنادیا ہے، جمود کی شکار قومیں ترقی نہیں کرسکتیں، ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، لیکن پاکستان دنیا میں ایک سیکیولر اسٹیٹ کا روپ دھار چکا ہے، جن لوگوں سے ایوان بھر دیے جاتے ہیں انہیں پاکستان کے نظریے سے کوئی دلچسپی نہیں، آپ کا آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے، آئین کہتا ہے قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مل کر سوچیں ہماری جمہویت کہاں ہے، مارشل لا پر مارشل لا لگا اور ہم سمجھوتا کرتے رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں امن و امان نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ڈی آئی خان، ٹانک، وزیرستان، لکی مروت اور باجوڑ میں دیکھیں کیا حالت ہے، ہمیں تو الیکشن میں نکلنے ہی نہیں دیا گیا۔ پختون یا بلوچ بیلٹ پر ریاست کا کنٹرول نہیں ہے، پاکستان اس وقت ایک غیر محفوظ ریاست ہے، ریاست غیر محفوظ ہوگی تو ذمہ دار کون ہوگا؟
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں جو امریکا نے کہا وہ ہم پر مسلط کردیا گیا، دہشتگردی کے خلاف بنائی پالیسی میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو طالبان کئی گنا زیادہ طاقتور بن کر کیسے آگئے؟ مغرب کے بعد وہاں تھانے اور پولیس چوکیاں بند ہوجاتی ہیں، آپ کی ساری پولیس محفوظ پناہ گاہوں میں چلی جاتی ہے اور مسلح افراد پورے علاقوں کا کنٹرول لے لیتے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ باجوہ صاحب کہتے تھے کہ ہم نے باڑ لگالی، وہ باڑ کہاں گئی، اس پر لگے اربوں روپے کہاں ہیں، کیسے پاکستان سے 30، 40 ہزار نوجوان وہاں گئے اور پھر طاقتور بن کر کیسے واپس آئے، افغانستان کی سرزمین سے لوگ کیسے پاکستان آئے؟
انہوں نے کہا کہ یہاں اصول ایک ہی ہے جو امریکا نے اپنایا، دہشتگردی اور عسکریت پیدا کرو تاکہ امریکا کو اپنی فوجیں لانے کا جواز ملے، عرب دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں امریکا کے فوجی نہیں، امریکا پوری اسلامی دنیا کو کنٹرول کررہا ہے، امریکا کہتا ہے کہ میں انسانی حقوق کیلئے ان ممالک میں جارہا ہوں، آج بھی عقوبت خانے امریکی مظالم کی گواہیاں دے رہے ہیں۔ آج فلسطین میں کیا ہورہا ہے، 40 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوچکے ہیں، غزہ میں شہید ہونے والے سب سے زیادہ بچے ہیں، امریکا، برطانیہ اور یورپ کے ہاتھوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے، یہی لوگ انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا ملک ٹھیک کرنا چاہئے، یہ قیادت کا مسئلہ ہے، نوازشریف، شہبازشریف اور بلاول سے کہتا ہوں کہ چھوڑیں اس اقتدار کو اور جائیں عوام میں، لیکن ہم سمجھنے کیلئے نہیں بلکہ نوکری کرنے کیلئے تیار ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ 2 مئی کو کراچی اور 9 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہوگا، اگر کسی نے مارچ روکنے کی کوشش کی تو اپنے لیے مصیبت کو دعوت دے گا۔