نئی دہلی کی عالمی شہرت یافتہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر شری شانتی پنڈت نے کہا ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں ڈریس کوڈ کے ذریعے کسی کو بھی کوئی خاص لباس پہننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی لڑکی حجاب استعمال کرنا چاہے تو اُس کی مرضی۔ اور اگر کوئی حجاب نہ لینا چاہے تو اُسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے انٹرویو میں ڈاکٹر شری شانتی پنڈت نے کہا کہ بھارت میں یکسانیت نہیں چل سکتی۔ مذہب کے معاملے میں بھی نہیں اور زبان کے معاملے میں بھی نہیں۔ ہندی کے معاملے میں کسی پر اپنی رائے مسلط نہیں کی جاسکتی۔ ہندی کو قومی زبان کا درجہ دے کر اُسے ملک کے ہر شہری کے لیے ناگزیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ڈاکٹر شری شانتی پنڈت کا کہنا تھا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا بنیادی مقصد طلبہ کو کھل کر بولنا سکھانا ہے۔ خوراک اور لباس کے معاملے میں انہیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بھارت بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ اپنی مذہبی تعلیمات اور روایات کے مطابق لباس زیبِ تن کرکے آکے ہیں۔ جس طرح بہت سے لڑکیاں شارٹس پہنتی ہیں بالکل اُسی طرح بہت سی لڑکیاں مکمل لباس میں ہوتی ہیں۔ کسی کو محض لباس کی بنیاد پر معتوب نہیں کیا جاسکتا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے کہا کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے مذہب کی طرح زبان، لباس، تہوار، اطوار اور رسوم و رواج کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ سب کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔
واضح رہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا شمار بھارت کے ان چند اداروں میں ہوتا ہے جو ہر دور میں سیکیولر ازم کی نمایاں ترین علامت بن کر انتہا پسندی اور رجعت پسندی کے خلاف کھڑے رہے ہیں۔
انتہا پسند ہندوؤں کے شدید دباؤ کے باوجود جے این یو آج بھی سیکیولر ازم کی سب سے بڑی علامت ہے اور سب کے لیے مساوی حقوق کی بات کرنے والا ادارہ ہے۔