سپریم کورٹ نے ہندو جیم خانہ کی حوالگی سے متعلق درخواستوں پرفیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے سندھ حکومت کو بلڈنگ کا تحفظ یقنی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ میں تجاویز طلب کرلیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس عمارت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، ہم نہیں کرنے دیں گے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ہندو جم خانہ کی ملکیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے کہا کہ کمشنر صاحب سے زمین کے رقبے کے حوالے سے تفصیل طلب کی جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے اپنی آبزر ویشن میں کہا کہ کسی سرکاری افسر کے ساتھ صاحب کا لفظ نہیں لگا سکتے، آپ کوئی ایک کتاب بتادیں جہاں کمشنر صاحب لکھا ہو، کمشنر کمشنر ہے بس۔
سپریم کورٹ کا ہندو جم خانہ سے دفاتر اور مارکی 2 ماہ میں ختم کرنے کا حکم
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ایم این اے صاحب نہیں ہوسکتے رمیش صاحب ہوسکتے ہیں۔
رمیش کمار نے تجویز دی کہ کہ آپ زمین کو سندھ حکومت کے حوالے کردیں، رکن اسمبلی کی اس تجویز پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ شہر میں کوئی ایسی عمارت بتا دیں جو سندھ حکومت نے محفوظ رکھی ہو؟، اس پر رمیش کمار نے جواب دیا کہ گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہاں عوام نہیں جاتے اس لیے صاف ہے، جو عوامی مقامات ہیں وہ بتائیں کسی کو صاف رکھا ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا رمیش کمار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ گورنر ہاؤس کے باہر احاطہ دیکھ لیں جاکر، کیا حال ہے، دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیں جہاں گورنر ہاؤس اور وزیر اعلی ہاؤس کے باہر کنٹینر لگے ہوں، وہ وقت بھی آے گا جب حکمرانوں کو اپنے بجائے لوگوں کی فکر ہوگی، ہمیں آپ سے زیادہ ہندو کمیونٹی کی فکر ہے، آپ قبضہ کرنا چاہتے ہیں ہم نہیں کرنے دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے رمیش کمار سے استفسار کیا کہ آج کل آپ کی پارٹی کون سی ہے؟ بدلتی رہتی ہے یا وہی ہے؟ جس پر رمیش کمار نے جواب دیا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں۔
سرکاری پلاٹ کی ملکیت کا تنازع: میئر کراچی سپریم کورٹ میں پیش
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی بدلتے رہتے ہیں، جہاں بھی ہوں ایک پارٹی میں رہیں، آپ کو تو ہندو جیم خانہ جگہ نہیں دیں گے کل آپ کچھ اور بنادیں گے۔
چیف جسٹس نے خوش گوار موڈ میں مکالمے میں کہا کہآج کل بڑا مسلہ ہوتا ہے، ہمارے ہر کمنٹس چھاپ دیتے ہیں ، آج کل ہر چیز خبر بن جاتی ہے ، ہمارے لائٹ کمنٹس بھی چھاپ دیتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے تیاری کے لیے ایک ماہ کے لیے مہلت طلب کی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ کبھی ایرانی ہوٹل گئے ہیں؟ اس میں کوئی معیوب بات نہیں، میں بھی جاتا تھا وہاں، ایرانی ہوٹل میں لکھا ہوتا تھا ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، آپ بھی التواء مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے کہا کہ کیس چلائیں بتائیں یہ جگہ کس کی ہے؟ جس پر ناپا کے وکیل نے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ بلڈنگ سیٹھ رام گوپال داس 1925 میں تعمیر کی تھی، تقسیم کے بعد 1958 میں عمارت کو حکومت نے ٹیک اوور کرلیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ تو مذہبی جگہ ہے عبادت گاہ ہے کیا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ اس میں سرسید یونیورسٹی بھی ہے اور ناپا بھی ہے۔
سندھ حکومت اور ڈی ایچ اے کے درمیان زمین کا تنازع حل، اپیل واپس لے لی
رمیش کمار نے کہا کہ یہ ملکیت ہندوئوں کی ہے اپنی رسومات ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے، یہاں مندر بھی موجود ہے، اوم کے نشانات موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم کورٹ جائیں وہاں بسم اللہ لکھا ہوا ہے تو وہ مسجد تو نہیں ہوجائے گی؟ آپ تو پارلیمنٹیرین ہیں ایوان میں اوپر کیا لکھا ہے؟ جس پر رمیش کمار نے کہاکہ وہاں لاالٰہ اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو کیا وہ مسجد کہلائے گی؟ ایسے دلائل مت دیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔
رمیش کمار نے کہا کہ یہاں 15 لاکھ ہندو رہتے ہیں، یہ ہندوؤں کی تقریبات اور رسومات ادا کرنے کی جگہ ہونی چاہیئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی اپنی تقریبات کریں، یہ تو اچھا ہے جگہ محفوظ ہے، آپ 2002 سے پارلیمنٹیرین ہیں، یہ جگہ پولیس کے پاس گئی، آپ کو اعتراض نہیں تھا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے پاس گئی تو، آپ کو اعتراض نہیں تھا، نجی ملکیت میں گئی تو آپ کو اعتراض نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ ہمارا دعویٰ 39 ہزار مربع گز زمین کا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فریق بن کر ہمارے سامنے ہیں ہی نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ویسے کچھ بھی ہوں گے مگر اس کیس میں آپ نہیں ہیں، آپ کا ذکر ہی نہیں کہیں۔
رمیش کمال نے کہا کہ ہمیں کسٹوڈین بنایا جائے تاکہ ہندو برادری اپنی سوشل سرگرمیاں کرسکے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ ہندو برادری کو الگ کیوں کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہیریٹیج بلڈنگ کے تحفظ کے لیے لوگوں کے نام بتائیں جو کام کرسکیں، آپ لوگ ماہرین کے نام دیں تاکہ چند لوگوں کو ذمہ داری دی جائے، جس پر وکلاء نے ماروی مظہر، عارف حسن، جاوید جبار، یاسمین لاری اور دیگر نام تجویز کردیے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما رمیش کمار نے کہا کہ مجھے اور دیگر لوگوں کے ساتھ انسپیکشن کی اجازت دی جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اس سے الگ رکھیں گے، آپ کے پاس پارلیمنٹ میں بہت کام ہے، حکومت سندھ نے ایک کام صرف اچھا کیا ہے، جیم خانہ کا تحفظ یقینی بنایا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے محکمہ ثقافت کی کمیٹی موجود ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے ہندو جیم خانہ کی حوالگی سے متعلق درخواستوں پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو عمارت کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ میں تجاویز طلب کرلیں۔