سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نکاح نامے میں شرائط و ضوابط طے کرنے سے قبل دلہن کو رضامندی ظاہر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اگر نکاح نامے کی شرائط و ضوابط یا کسی کالم میں ابہام یا شک ہوا تو اس کا فائدہ بیوی کو دیا جائے گا، سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے نکاح نامے میں درج پلاٹ کے لیے دلہن کے حق کا تعین کرنے کے معاملے پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا۔
فیصلے کے مطابق اگر نکاح نامے کی شرائط و ضوابط یا کسی انٹری یا کالم میں ابہام یا شک ہو تو اس کا فائدہ بیوی کو ملے گا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر دلہن کی بامعنی مشاورت کے بغیر نکاح نامے کے کالمز کوئی اور پُر کرے تو اسے دلہن کے مفاد کے خلاف یا اُس کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، یہ طے شدہ قانون ہے کہ معاہدے میں کوئی ابہام ہو تو اسے فریقین کے اصل ارادے سے طے کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عدالتوں کو نکاح نامے کی شرائط و ضوابط کی تشریح کرنے سے قبل اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ کیا نکاح نامے میں شرائط و ضوابط طے کرنے سے قبل دلہن کو رضا مندی ظاہر کرنے کی مکمل آزادی تھی؟۔
سپریم کورٹ نے تنسیخ نکاح اور خلع میں فرق واضح کردیا، عورت مہر سے محروم نہیں ہوگی
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ کسی ابہام کو اُس وقت تک اہلیہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا جب تک امکانات کے توازن کے اس اصول پر جانچا نہ جائے۔
یاد رہے کہ 2022 میں لاہور ہائیکورٹ نے ہما سعید نامی خاتون کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس نے مئی 2014 میں محمد یوسف سے شادی کی تھی۔
محمد یوسف نے اکتوبر 2014 میں اپنی اہلیہ ہما سعید کو طلاق دے دی تھی، بعدازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ نکاح نامہ کے کالم نمبر 17 میں مذکورہ پلاٹ کو مہر یا تحفہ کے طور پر نہیں دیا جاسکتا ہے۔
خصوصی عدالتوں میں سویلین مقدمات کے فیصلوں کی نقول طلب
درخواست گزار نے استدعا کی کہ کالم نمبر 17 کا عنوان ’خصوصی شرائط‘ دوسرے کالموں سے الگ ہے، جو خاص طور پر جہیز کی شرائط کو طے کرنے کے مقاصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اپنے تحریری بیان میں محمد یوسف نے استدعا کی کہپلاٹ ایک گھر کی تعمیر کے لیے تھا اور ان کی اہلیہ کو ان کی شادی کی مدت تک وہاں رہنا تھا۔