سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینزکا ٹرائل کالعدم قراردینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کرلیں۔ اٹارنی جنرل نے رہائی پانے والے 20 ملزمان کی تفصیلات جمع کرادیں۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کےاعتراض پر عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوادیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے عید سے قبل رہا ہونے والے 20 ملزمان کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائیں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہرنے پوچھا کہ رہا ہونے والے ملزمان کے خلاف کیا اب کوئی کیس نہیں ہے؟
اعتزاز احسن بولے کہ ملزمان کو سزا یافتہ کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ ایک ملزم کوٹرائل کے بغیر سزا یافتہ کیا گیا جس کا اندراج اٹارنی جنرل کی فہرست میں بھی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ پراعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس منصورعلی شاہ نے کیس میں نوٹ لکھے کہ کم ازکم 9 رکنی لارجر بینچ کو کیس سننا چاہیے۔ وکیل صفائی سلمان اکرم راجہ نے حمایت میں موقف اپنایا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کسی جج نے نوٹ میں لارجر بینچ تشکیل دینے کی بات نہیں کی۔ جسٹس یحیی آفریدی سمیت کسی جج نے بینچ پراعتراض نہیں اٹھایا۔ ججزنے اپنی رائے دی مگر کسی جج نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب نوٹ لکھنے والے جج نہیں اٹھے توہم کیوں بینچ سے اٹھ جائیں۔ اگرہم بھی بینچ سے الگ ہوگئے توکیا یہاں پھر کوئی اور آکر سماعت کرے گا؟ لارجر بینچ کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوانے کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔