کراچی کی تاجر برادری نے ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کی آمد پر کراچی میں لاک ڈاؤن پر شدید بدمزدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک دن کے لیے کاروبار کی بندش سے مجموعی طور پر ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سندھ حکومت نے ایرانی صدر کی آمد پر عوام کو آمد و رفت میں مشکلات سے بچانے کے لیے منگل کی عام تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ تاجر برادری نے ایک دن کے لیے لاک ڈاؤن کو خسارے کے تناظر میں دیکھا۔
شارعِ فیصل کے علاوہ ڈاؤن ٹاؤن ایریا صدر میں الیکٹرانکس مارکیٹ سمیت بیشتر تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہے۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹ البتہ کھلے رہے۔ جوڑیا بازار، صرافہ بازار اور کپڑا مارکیٹ کی کچھ دکانیں کھلی رہیں تاہم لین دین برائے نام ہوا۔
سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ نے کہا کہ ایک دن کی بندش کے نتیجے میں کاروباری برادری کو مجموعی طور پر ساڑھے تین ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ نے شہر کی تمام کلیدی شاہراہوں کو بند کردیا تھا جس کے باعث لوگوں کو آمد و رفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایم اے جناح روڈ، شاہراہِ قائدین اور شارعِ فیصل کو کنٹینرز لگاکر بند کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں خریداری کے لیے تھوک فروخت کے علاقوں میں جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
جمیل پراچہ نے کہا کاروباری برادری حکومت سے استدعا کرتی ہے کہ اپنے اس قسم کے منصوبوں سے تاجر برادری کو الگ تھلگ رکھے تاکہ اُنہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایسے اقدامات سے وفاق کی تاجر دوست ٹیکس پالیسی بھی مطلوب نتائج فراہم نہیں کرسکے گی۔
آل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری (کراچی چیپٹر) کے صدر محمود حامد نے کہا کہ شاہراہوں اور اُن سے منسلک سڑکوں کی بندش سے کاروباری سرگرمیوں کی مکمل بحالی میں مشکلات درپیش رہیں۔
محمود حامد کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت ایرانی صدر کی آمد کے حوالے سے سیکیورٹی اقدامات کے بارے میں کاروباری برادری اور عوام دونوں ہی کو اعتماد میں لینے میں ناکم رہی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پابندیاں کتنی دیر کے لیے لگائی جارہی ہیں۔