عام طور پر یہ خیال پاکستانیوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ سیاسی جانشینی اور خونی رشتوں کو حکومتی عہدے دیے جاتے ہیں، تاہم آزربائیجان کے صدر بھی اس حوالے سے شدید تنقید کا شکار ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں آزربائیجان اور آرمینیا کے دوران جنگ نے آزربائیجان نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی تھی، جس کے صدر الہام علوی نے پاکستانی سمیت دنیا بھر میں آرمینیا سے متعلق اعتماد کے لیے رابطہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب آزربائیجان کے صدر الہام علوی اپنی اہلیہ کو لے کر بھی تنقید کی زد میں تھے، کیونکہ 2017 میں انہوں نے اہلیہ کو بطور نائب صدر بنانے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
صدر الہام علوی نے اہلیہ اور خاتون اول مہری بان کو نائب صدر بنوانے کے لیے نہ کاغذات نامزدگی جمع کروائے بلکہ انہیں اس عہدے پر بھی لے آئے۔
اس طرح آزربائیجان وہ ملک بن گیا ہے، جہاں صدر کی اہلیہ ان کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔
نائب صدر اور اہلیہ مہری بان میڈیکل یونی ورسٹی سے گریجوئییٹ ہوئی ہیں، جبکہ حیدر علوی فاؤنڈیشن میں بطور قانون دان ذمہ داریاں نبھا چکی ہیں۔
ایک موقع پر اہلیہ کی تعریف کرتے ہوئے صدر آزربائیجان کا کہنا تھا کہ مجھے اہلیہ کے متاثر کن کاموں نے مجبور کیا کہ میں بطور نائب صدر ان کا نام دوں۔
جبکہ بطور نائب صدر اہلیہ کابینہ کا کاموں کو نظر رکھیں گی، تاہم آزربائیجان کے آئین نے اس حوالے سے واضح نہیں کیا ہے۔
تاہم نائب صدر منتخب ہونے پر دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کی گئی تھی، مساوات پارٹی کے سربراہ عیسیٰ گامبر کا ردعمل میں کہنا تھا کہ آزربائیجان میں بادشاہت کا نظام چل رہا ہے۔ اس قدم نے آزربائیجان کو پرانے وقت میں دھکیل دیا ہے۔
جبکہ ناقدین کا اس حوالے سے بھی تنقید میں کہنا تھا کہ صدر نے دنیا کی آدھی دولت اور طاقت اپنی اہلیہ کے قدموں میں لا کر رکھ دی ہے۔