پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی ایشیاء میں جادو ٹونے کے حوالے سے کافی خبریں منظر عام پر آ چکی ہیں، تاہم اس بار برطانیہ جادو ٹونے کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔
حال میں جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں جادو ٹونہ کے جرائم کے 175 کیسز سامنے آئے ہیں۔
ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متعدد مجرمان مبینہ طور پر کالے جادو کا استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔
ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے جس طرح جنوبی ایشیائی ممالک میں کالے جادو کے استعمال کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں، بالکل اسی طرح اب برطانیہ میں ایک دوسرے کو مالی، جانی اور صحت سے متعلق نقصان کے لیے کالے جادو کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
وسطی مرسیا پولیس کی جانب سے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہریوں کو یہ دھمکی آمیز خط موصول ہوئے جن میں ووڈو ٹیکنیکز سے انہیں نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی۔
جبکہ دوسری جانب شمالی ویلز کی پولیس کو ایک ایسے شخص سے نبر آزما ہونا پڑا جس پروبیشن افسر پر کالے جادو کا استعمال کرنے کا شک تھا۔
ڈیلی میل کی جانب سے برطانوی پولیس اور جادو ٹونے کے ملزمان سے متعلق مزید انکشاف کرتے ہوئے رپورٹ میں کہنا تھا کہ ناٹنگھم شئیر کی پولیس کی جانب سے 78 ایسے دعوؤں پر تحقیقات کی گئی ہیں، جبکہ ہمبر سائڈ پولیس کی جانب سے 60 ایسے ہی کیسز پر تحقیقات کی گئیں، جن میں کالے جادو کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
ان میں 6 افراد ایسے بھی شامل تھے، جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ بدعاؤں، لعنتوں اور کالے جادو کی وجہ سے ہمارے جسم پر ہمارا کنٹرول نہیں رہا ہے۔
جبکہ برطانوی پولیس کے لیے مشکل اس وقت کھڑی ہو گئی جب ایک خاتون یہ شکایت لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئیں کہ انہیں یہی یقین تھا کہ اس کے جسم کو کاٹ دیا جائے گا، کیونکہ وہ ایک چڑیل ہے۔
تاہم رپورٹ کے مطابق اکثریت ایسی شکایتوں کو خارج کر دیا گیا ہے، کیونکہ ان میں سے کئی عوام مفاد میں تحقیقات کے قابل نہیں تھیں۔
جبکہ کچھ کیسز کی تحقیقات کی گئیں، جن میں یا تو دماغی صحت متاثر تھی یا پھر گھریلو جھگڑے ہو رہے تھے۔
واضح رہے 1951 سے قبل جادو ٹونہ کرنے پر سزائیں دی جاتی تھیں، تقریبا 200 سال تک 500 کے قریب جن میں اکثریت خواتین کی شامل تھیں، انہیں سزائیں دی گئیں۔ تاہم 1951 کے بعد سے اسے ناقابل جرم قرار دے دیا ہے۔