امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم ”حماس“ قطر میں اپنا دفتر بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ بات کرنے والے عرب ثالثوں کے مطابق، حماس کی سیاسی قیادت مبینہ طور پر امریکی کانگریس کے ارکان کی جانب سے فلسطینی مزاحمتی تحریک کے لیے خلیجی ملک کی حمایت پر بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے اپنا ہیڈکوارٹر قطر سے باہر منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
تاہم، وسط ایشیائی آن لائن میگزین ”دی کریڈل“ سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ایک اہلکار نے امریکی اخبار کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے اسے ’بے بنیاد خبر‘ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ حماس کے دوحہ کے ساتھ تعلقات میں ’کوئی تبدیلی‘نہیں آئی ہے۔
حماس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ”دی کریڈل“ کو بتایا کہ ’سیاست اور مفادات کی دنیا میں کچھ بھی طے شدہ نہیں ہوتا، لیکن یہ خط لکھنے کے لمحے تک صورتحال کا یہی ہے کہ قطر کے ساتھ تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔
امریکی مالیاتی اخبار نے اس سے قبل عرب حکام کے حوالے سے کہا تھا کہ حماس نے حال ہی میں سلطنت عمان سمیت خطے کے کم از کم دو ممالک سے اپنے سیاسی رہنماؤں کے ان کے دارالحکومتوں میں منتقل ہونے کے امکان کے بارے میں بات چیت کی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اشارہ دیا کہ قطر سے حماس کی روانگی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت میں خلل ڈال سکتی ہے۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ اس طرح کی روانگی سے اسرائیل اور امریکہ کے لیے حماس تک پیغام پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ایک باخبر عرب ثالث نے اخبار کو بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ’مذاکرات پہلے ہی روک دیے گئے ہیں، جس کے جلد ہی کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، حماس اور مذاکرات کاروں کے درمیان اعتماد کا فقدان بڑھ رہا ہے۔‘
ایک اور عرب ثالث نے کہا کہ ’جنگ بندی کے مذاکرات مکمل طور پر ختم ہونے کا امکان کافی ممکن ہو گیا ہے۔‘قطر کو امریکی قانون سازوں کی جانب سے حماس کی حمایت کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے، حالانکہ قطر کو مکمل طور پر امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگریس کے ممتاز رکن سٹینی ہوئر نے حال ہی میں کہا ہے کہ قطر کو حماس پر دباؤ ڈالنا چاہیے، اور اس کیلئے وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے گروپ کو دی جانے والی مالی امداد بند کر دے یا اس کے سیاسی رہنماؤں کو دوحہ سے نکال دے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’اگر قطر اس دباؤ کو لاگو کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو امریکہ کو قطر کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔‘
قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے حال ہی میں کہا تھا کہ خلیجی ریاست اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالث کے طور پر دستبردار ہونے پر غور کر رہی ہے کیونکہ ان کے بقول یہ غیر منصفانہ تنقید ہے۔
قطری رہنما نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ’اس کردار کی حدود ہیں اور اس صلاحیت کی بھی حدود ہیں جس کے ذریعے ہم ان مذاکرات میں تعمیری انداز میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ریاست قطر مناسب وقت پر مناسب فیصلہ کرے گی۔‘
قطر ایک بڑے امریکی فضائی اڈے کا گھر ہے اور اسے 2022 میں صدر جو بائیڈن نے ”بڑا نان نیٹو اتحادی“ قرار دیا تھا۔
ایک قطری اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کا سیاسی دفتر قطر میں 2012 میں امریکی حکومت کے تعاون سے ’امریکی رابطہ چینل کھولنے کی درخواست کے بعد کھولا گیا تھا۔‘
اے ایف پی نے مزید کہا کہ مغربی ایشیا کے تجزیہ کار آندریاس کریگ کا کہنا تھا کہ کہ امریکی حکام ’ان پر مکمل نگرانی اور کنٹرول کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔‘
اس کے بعد قطر نے حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی کو برسوں تک مالی امداد فراہم کی، جو ’اسرائیل، اقوام متحدہ اور امریکہ کے ساتھ مکمل طور پر مربوط تھی۔‘
قطر کی جانب سے حماس کی فنڈنگ کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مخصوص آشیرباد حاصل تھی۔ جیسا کہ صحافی سکاٹ ہارٹن نے تفصیل سے بتایا کہ نیتن یاہو نے کنیسٹ میں اپنی پارٹی کے ممبران پر فخر کیا کہ حماس کو اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ کرنے کی صورت میں ان کی حکمت عملی کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ دھچکے کو وہ قابل اعتماد طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
نیتن یاہو نے دعویٰ کیا، ’جو کوئی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنانا چاہتا ہے اسے حماس کو تقویت دینے اور حماس کو رقوم کی منتقلی کی حمایت کرنی ہوگی… یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے – غزہ میں فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے الگ تھلگ کرنا… یہ ناممکن ہے۔ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کریں (حماس) … یہ سب جانتے ہیں، لیکن ہم شعلوں کی بلندی کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘