ایوانِ بالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ کسی ’قوت‘ نے میاں محمد نواز شریف کا وزیراعظم بننے کا راستہ روکا ہے، اگر کوئی قوت راستہ روکتی تو شاید وہ ضرور وزیراعظم بن جاتے، ان کا مزاج ایسا ہے کہ وہ بالکل برعکس فیصلہ کرتے۔
آج نیوز کے پروگرام ”آج ایکسکلوژو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس بات کی بھی تردید کی کہ شہباز شریف نے پارٹی کے اندر نواز شریف کے مخالف کوئی گروہ بنایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب الیکشن سے بہت پہلے یہ سوچ بنائے بیٹھے تھے کہ میں چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسے لیڈر موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک، معیشت، عوام، عزت و آبرو جائے بھاڑ میں، مجھے وزیراعظم بننا ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ’میاں صاحب آفرز پر یقین نہیں رکھتے، میاں صاحب کیلئے کہیں سے کوئی منفی جذبہ نہیں تھا، کہیں سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی، اور میاں صاحب کا وزارت عظمیٰ نہ لینا خالصتاً ان کا اپنا سوچا سمجھا فیصلہ تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ میاں صاحب سیاست سے باہر نہیں ہوسکتے، وہ خود بھی معاملات کو دیکھتے ہیں اور شہباز شریف بھی ان سے ملکی معاملات پر مشورے کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حالیہ انتخابات میں زیادہ نشستوں کی امید تھی، لیکن اپنی گزشتہ 16 ماہ کی حکومت اور کارکردگی کے حوالے سے ہم اپنا بیانیہ عوام تک ٹھیک طرح سے نہیں پہنچا سکے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ الیکشن میں ہماری توقعات پوری کیوں نہیں ہوئی اس پر ایک کمیٹی بنائیں گے۔
رانا ثناء اللہ، محمد زبیر اور جایود لطیف سمیت متعدد رہنماؤں کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے پارٹی پر الزامات پر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، وہ اگر پارٹی میں ایک ذمہ دار شخصیت ہیں تو میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اپوزیشن ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے، پی ٹی آئی سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بننے جا رہی ہے تو وہ اپنا کردار ادا کرے۔
تین سال میں کرکردگی دکھانے کے بعد دوبارہ الیکشن میں جانے کے سوال پر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’نہ میں ایسی کسی میٹنگ کا حصہ بنا ہوں، نہ مجھے اس کا علم ہے اور نہ میرے خیال میں اس میں کوئی صداقت ہے‘۔ یہ حکومت پانچ کیلئے آئی ہے اور پانچ سال ہی اسمبلیاں چلیں گی اور پھر الیکشن ہوں گے۔ پی ٹی آئی جان لے کہ پانچ سال سے پہلے الیکشن کا مرحلہ نہیں آنے والا۔
محسن نقوی اور محمد اورنگزیب جیسے غیر سیاسی لوگوں کو باہر سے لاکر حکومت کا حصہ بنانے میں شہباز شریف کو کسی مسئلے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اگر نہیں چاہتے تو دس دلیلیں دے کر ان کو نہیں رکھتے ، ایسی کوئی بات نہیں کہ ان کو مسلط ہی کرنا ہوتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نے خود کہا ہو کہ یہ دو بندے مجھے دے دیں۔
ایک سال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نو مئی ایک بغاوت تھی، بغاوت کے نتیجے میں آرمی چیف کا تختہ پلٹنا تھا، یہ ایک پوری سازش تھی، ’بغاوت کا پہلا حصہ مکمل بھی ہوگیا، اس کا دوسرا حصے پر فوج نےقابو پالیا، چند افسروں کے خلاف انہوں نے ایکشن بھی لے لیا، انہیں گھروں میں بھی بھیج دیا‘۔
انہوں نے کہا کہ نو مئی کی بغاوت کو ہم نے بغاوت کی طرح لیا نہیں ہے، فوج نے ان مقدموں میں فیصلے کیے ہوئے ہیں لیکن سنائے اس لئے نہیں جارہے کہ عدلیہ نے رکاوٹ کھڑی کی ہوئی ہے۔