سنگاپور کی نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے محققین نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے مشینی کاکروچ (لال بیگ) تیار کیے ہیں۔ ماہرین نے سائبورگ یعنی برقی آلات کی مدد سے چلنے والے کاکروچز کی ’فوج‘ کو آزمائشی بنیاد پر ایک ریتیلے علاقے میں اتارا۔
اس آزمائش کا بنیادی مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کیا مشینی کاکروچ کسی بھی علاقے میں مخصوص اہداف کے حصول، لوگوں یا چیزوں کو ڈھونڈ نکالنے میں مدد دے سکیں گے یا نہیں۔ معروف جریدے ’نیو سائنٹسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین مستقبلِ قریب میں ناگہانی آفات کے دوران لاپتا ہونے والوں کی تلاش میں مشینی کاکروچ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مشینی کاکروچ کی پشت پر بیک پیک ہوگا جس میں مختلف ننھے آلات نصب ہوں گے۔ ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈ نکالنے میں بھی یہ مشینی کاکروچ مددگار ثابت ہوں گے۔
محققین نے مختلف تجربات کے دوران، جن کا ذکر ایک مقالے میں کیا گیا ہے، مڈگاسکر کے پُھنکارتے ہوئے کاکروچوں کی پشت پر بیک پیک لگائے تاکہ انہیں ایک مرکزی کمپیوٹر کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکے۔ ان بیک پیکز سے کاکروچوں کے لیے احکامات جاری کیے گئے مثلاً یہ کہ اُنہیں کس سمت جانا ہے۔
یہ تجربہ کامیاب رہا۔ یہ کاکروچ کسی فوج کے سنگل یونٹ کی حیثیت سے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پائے گئے اور ماہرین نے اُنہیں آسانی اور جامعیت سے کنٹرول کیا۔ اس تجربے کو حقیقی زندگی کا حصہ بننے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
تجربات کے دوران مرکزی کمپیوٹر کے سوفٹ ویئر نے لیڈر کو نمبر دیا جبکہ دیگر کاکروچ اُس کے پیچھے چلے پائے گئے۔ مشینی کاکروچ کسی بھی رکاوٹ کے گرد دائیں یا بائیں سے ہوتے ہوئے اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ بعض معاملات میں پیٹھ کے بل گرنے والوں کو سیدھا ہونے میں مدد بھی کی گئی۔
ایک مرکزی روبوٹ بیک پیک کو ریچارج کرنے میں مدد بھی دیتا تھا اور اُنہیں خوراک اور پانی بھی فراہم کرتا تھا۔ محققین کی یہی ٹیم اب کیکڑوں کو بھی سائبورگ یعنی مشینی بنانے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ محققین کی ٹیم کے سربراہ میکینکل انجینیر پروفیسر ہیروتاکا ساتو نے ’نیو سائنٹسٹ‘ کو بتایا کہ مشینی کاکروچز کے لیے کیکڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے تجربات کو مکمل کامیابی سے ہم کنار کرنے میں وقت لگے گا۔