ایران نے 13 اپریل کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جو دمشق میں اس کے قونصل خانے پر حملے میں اعلیٰ فوجی عہدیدار کے قتل کا بدلہ تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے اب ایران پر حملہ کیا ہے اور اصفہان کے ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انڈیا ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور ایران نے چونکہ فضائی حملوں کا آپشن منتخب کیا ہے اس لیے فضائی جنگ کے حوالے سے دونوں کی استعداد اور کامیابی کے امکانات کا اندازہ لگانا لازم ہے۔
ایران کے پاس لڑاکا طیاروں کے ایک اسکواڈرن کے علاوہ ایک روسی ساختہ سخوئی 24 لڑاکا طیارہ اور چند مِگ 29، ایف سوین اور ایف 14 طیارے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کی فضائیہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور اس سلسلے میں اس کی امریکا نے بھرپور مدد کی ہے۔ اس کے پاس امریکا کے فراہم کردہ جدید ترین ایف 15، ایف 16 اور ایف 35 لڑاکا طیارے ہیں۔ یہ تمام کثیرالمقاصد ہیں۔
ایران کے پاس جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام بھی ہے۔ ایران فضائی دفاعی نظام کے حوالے سے اپنی استعداد کے ساتھ ساتھ بہت حد تک روسی ٹیکنالوجی پر مدار رکھتا ہے۔
لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مطابق اایران کے پاس زمین سے زمین پر مار کرنے والے 3500 میزائل ہیں۔ ان میں چند ایسے بھی ہیں جو 500 کلو گرام تک کے ہتھیار لے جاسکتے ہیں۔ ایرانی فضائیہ 37 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ کئی عشروں کے دوران عائد رہنے والی پابندیوں کے باعث وہ جدید ترین ٹیکنالوجیز سے محروم ہے۔
ایرانی فضائیہ کے پاس چند درجن ہی لڑاکا طیارے ہیں۔ ان میں چند پرانے امریکی لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ اس کے پاس ایک اسکواڈرن ایف 4 اور ایف 5 طیاروں کا ہے اور ایک اسکواڈرن روسی ساختہ سخوئی 24 طیاروں کا بھی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل میں دور تک مار کرنے والے میزائل اور ڈرون برائے نام ہیں۔
بدھ کو ایک بیان میں ایرانی ایئر فورس کے کمانڈر عامر واحدی نے کہا تھا کہ روسی ساختہ سخوئی 24 طیارے بہترین تیاری کی حالت میں ہیں۔ یہ طیارے 1960 کی دہائی کے ہیں اور اِن کی موجودگی ایرانی فضائیہ کی کمزوری ظاہر کرتی ہے۔
تہران کو 2016 میں روس کی طرف سے S-300 اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم کی ڈلیوری ملی تھی۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے دور مار میزائلوں کا نظام ہے جو بیک وقت کئی اہداف کو کور کرتا ہے۔
ایران کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے ملکی ساختہ باور 373 میزائل پلیٹ فارم بھی ہے۔ صیاد اور رعد دفاعی نظام اس کے علاوہ ہیں۔
انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ریسرچ فیلو فابیان ہِنز کہتے ہیں کہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل جنگ چھڑ جائے تو ایران کسی کسی محاذ پر کچھ کامیابی کا سوچ سکتا ہے کیونکہ اسرائیل کی مجموعی قوت بہت زیادہ ہے۔
گزشتہ ہفتے ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو ناکام بناکر اسرائیل نے اپنی فضائی برتری ثابت کردی تھی۔ اسرائیل کے پاس دور تک مار کرنے والے لڑاکا طیاروں کی البتہ کمی ہے۔ بوئنگ طیاروں کے ایک بیڑے کو اس مقصد کے لیے اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
ڈرون ٹیکنالوجی میں اسرائیل قائدانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ہیرون ڈرون 30 گھنٹے تک اُڑ سکتے ہیں۔ یہ صلاحیت اُسے بہت دور تک مار کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ ڈرونز خلیج کے خطے تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسرائیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے طویل فاصلے کے میزائل تیار کیے ہیں مگر اس خبر کی کوئی تصدیق کرتا ہے نہ تردید۔ 2018 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ دفاع ایوِگڈور لائبرمین نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کو نئی میزائل فورس ملنے والی ہے۔
1991 کی خلیج کی جنگ کے بعد امریکا کی مدد سے اسرائیل نے کئی پرتوں پر مشتمل فضائی دفاعی نظام تیار کیا تاکہ ایران کے دور مار میزائلوں اور ڈرونز کو مار گرانا آسان ہو۔
اسرائیل کے پاس سب سے بلندی پر کام کرنے والا سسٹم Arrow-3 ہے جو بیلسٹک میزائلوں کو فضا ہی میں جھپٹ سکتا ہے۔ درمیانی رینج کا نظام ”ڈیوڈز سلِنگ“ بیلسٹک اور کروز میزائلوں کا توڑ ہے۔
آئرن ڈوم نامی فضائی دفاعی نظام غزہ اور لبنان کی طرف سے داغے جانے والے راکٹ اور گولے جھپٹ لیتا ہے۔ ڈیوڈز سلِنگ سے چُوک جانے والے میزائل بھی یہ فضائی دفاعی نظام روک سکتا ہے۔