پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ میرے خلاف منشیات کا مقدمہ جنرل (ر) باجوہ اور فیض حمید کے اتفاق سے بنا۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ان پر منشیات کا مقدمہ ’بنیادی طور پر عمران خان صاحب نے بنایا تھا اور اس میں شہزاد اکبر صاحب ملوث تھے، انہوں نے پہلے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا، لیکن جب اسلام آباد پولیس یہ وزن نہ اٹھایا تو انہوں نے اے این ایف میں بات کی، لیکن اے این ایف جب تک میرے خلاف مقدمہ نہیں بنا سکتی تھی جب تک فیض حمید صاحب اور باجوہ صاحب ان دونوں کی طرف سے کنکرس (متفق ہونا) نہ ہوتی، اور میں نے یہ بات باجوہ صاحب کے منہ پر، جب پارلیمنٹ میں وہ ایک تقریب میں موجود تھے تو میں نے ان کو کہا تھا، میں نے کہا تھا میرا اللہ آپ کے اور میرے درمیان فیصلہ کرے گا یہ مقدمہ آپ نے میرے خلاف بنایا ہے‘۔
سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’انہوں (جنرل باجوہ) نے کہا میں نے نہیں بنایا، تو میں نے کہا کہ اگر یہ مقدمہ آپ کی اجازت کے بغیر بنتا تو اگلے دن آپ کا کورٹ مارشل ہوتا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’لیکن یہ مقدمہ کروانے والے وزیراعظم پاکستان ہی تھے‘۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا عمران خان سے جھگڑا اس بات پر ہوا تھا کہ وہ چاہتے تھے اپوزیشن کو جڑ سے ختم کردیا جائے، ’وہ اسٹبلشمنٹ کا ساتھ چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے میرا ساتھ دیں اپوزیشن کا معاملہ ہی ختم کریں، وہ آن بارڈ نہ ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ احتساب نہیں کر رہے، یہ میر جعفر ہیں یہ میر صادق ہیں، تو عمران خان کی خوشنودی کیلئے جو بھی ان کی ہاں یا سروس تھی وہ انہوں نے ملائی ہوگی‘۔
رانا ثناء اللہ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ اگر ان کی جماعت اپوزیشن میں ہوئی تو ان کے خلاف دوبارہ مقدمہ بنے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی اور آئینی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ جب باہر سے مداخلت ہوتی ہے تو وہ اس دباؤ کا سامنا ہی نہیں کرسکتے۔
شاہد خاقان عباسی کی جانب سے نئی سیاسی جماعت بنانے پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں نئی سیاسی جماعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پہلے ہی 117 پارٹیاں ہیں 118 بن کر کیا کرلیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک میں اتنا کوئی دم خم نہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی مسئلہ پیدا کرسکیں۔