امریکا کی ایک عدالت نے کینیڈا اور فرانس کی شہریت رکھنے والے 57 سالہ پیٹرس رنر کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اُس پر میل آرڈر بزنس کے ذریعے ’عملیات‘ کے نام پر کم و بیش 15 لاکھ افراد کو دھوکا دینے والا الزام ثابت ہوگیا تھا۔ گزشتہ جون میں اُسے مجموعی طور پر 12 مقدمات میں فردِ جرم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پیٹرس نے 20 سال میں کینیڈا اور امریکا کے 15 لاکھ شہریوں سے 17 کروڑ 50 لاکھ روپے بٹورے۔ پیٹرس نے کاغذی کمپنیوں کے ذریعے فرانس سے تعلق رکھنے والی باطنی علوم کی ماہر ماریہ ڈوول کے نام سے دو عشروں میں ایسے ساڑھے پانچ کروڑ خطوط امریکا اور کینیڈا میں ارسال کیے جن میں سہانے مستقبل کے خواب دکھائے گئے تھے۔
پیٹرس نے کینیڈا اور ہانگ کانگ میں رجسٹرڈ کاغذی کمپنیوں کا سہارا لیا اور درست پیش گوئی کے نام پر امریکا اور کینیڈا میں بالعموم معمر شہریوں سے پیسے وصول کیے۔ ان پیسوں سے وہ شاہانہ طرز کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اس نے سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، فرانس، کوسٹا ریکا اور اسپین میں تعیشات کے ساتھ وقت گزارا۔
سزا ملنے پر وہ تسلیم کرتا ہے کہ اُس نے خاصی لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہانہ انداز اپنایا۔ اور یہ کہ وہ اس گمان میں بھی مبتلا تھا کہ خط و کتابت کے ذریعے فیس وصول کرنے کا دھندا ہمیشہ چلتا رہے گا۔