استعفیٰ بھی دیا تھا گوگل کے سیکڑوں ملازمین نے اسرائیل سے اشتراکِ عمل ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ انہوں نے گوگل کلاؤڈ کے چیف ایگزیکٹیو ٹامس کوریان کے دفتر کے سامنے جمع ہوکر اسرائیل سے تعلق ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کم و آٹھ گھنٹے تک دھرنا دے کر دفتر پر قبضہ کیا۔
احتجاج کی پاداش میں متعدد ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ احتجاج کیلیفورنیا اور نیو یارک میں کیا گیا۔ ملازمین نے کمپنی کی انتظامیہ پر زور دیا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ترک کیا جائے۔ جن ملازمین نے گوگل کلاؤڈ کے سی ای او کے دفتر سے نکلنے سے انکار کیا اُنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی حکومت کو کلاؤڈ کمپیوٹر سروسز کی فراہمی روکی جائے۔
گوگل ملازمین کے احتجاج کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بہت بڑے پیمانے پر شیئر کی جارہی ہے۔ اس وڈیو میں احتجاجی ملازمین کو گوگل کلاؤڈ کے سی ای او کے دفتر میں بیٹھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے احتجاج کی لائیو اسٹریمنگ بھی کی۔
ڈیلی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ گوگل نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ 2021 میں کئی ارب ڈالر کا اے آئی کنٹریکٹ، پرواجیکٹ نِمبس، کیا تھا۔
انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے ملازمین کو بتایا کہ ان کی انتظامی رخصت منظور کی گئی ہے، اب وہ احتجاج ترک کردیں۔ جب وہ نہ مانے تو پولیس طلب کی گئی جس نے متعدد ملازمین کو گرفتار کرلیا۔ یہ ملازمین ’نو ٹیک فار اپارتھائیڈ‘ تحریک کا حصہ ہیں۔ گوگل کے ملازمین میں پایا جانے والا یہ گروپ ادارے کے اہم فیصلوں کے حوالے سے کُھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا ہے۔
احتجاج کرنے والی گوگل ملازمہ ایمان حسیم نے abc7news کو بتایا کہ وہ اپنی ملازمت کھونا نہیں چاہتیں مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ ہر ہفتے کام پر آئیں اور پروجیکٹ نِمبس کے خلاف احتجاج بھی نہ کریں۔ ایمان حسیم نے بتایا کہ اسرائیل سے کیے گئے معاہدے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے متعدد ملازمین مستعفی ہوگئے تھے۔ ان ملازمین نے بتایا تھا کہ یہ معاہدہ اُن کی ذہنی صحت کے بگاڑ کا سبب بنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ نمبس کے ذریعے اسرائیل کو فراہم کی جانے والی خدمات اسرائیل کو غزہ کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے استعمال میں مدد دے رہی ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو یہ ملازمین اے آئی کی مدد سے کی جانے والی پہلی نسلی تطہیر قرار دیتے ہیں۔