جوہری توانائی کے عالمی ادارے ”انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی“ (آئی اے ای اے) کے سربراہ نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے ایران نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں کے بعد سکیورٹی تحفظات کے پیش نظر اپنی جوہری تنصیبات عارضی طور پر بند کر دی ہیں۔
سکیورٹی کونسل اجلاس کے موقع پر پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رافیل گروسی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے امکان پر فکرمند ہیں؟
جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسے کسی بھی امکان پر ہمیشہ فکرمند ہوتے ہیں، میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ایران میں موجود انسپکٹرز کو ایرانی حکومت کی جانب سے اتوار کو مطلع کیا گیا کہ وہ جوہری تنصیاب جن کا ہم روز جائزہ لیتے ہیں، سکیورٹی تحفظات کی وجہ سے بند رہیں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ تنصیاب پیر کو کھلنا تھیں مگر انسپکٹرز اس کے ایک روز بعد تک وہاں رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انسپکٹرز کو تب تک واپس نہ بلایا جائے جب تک صورت حال مکمل طور پر پرسکون نہیں ہو جاتی۔‘
خیال رہے کہ اسرائیل اس سے قبل بھی خطے میں جوہری تنصیبات کے خلاف آپریشنز کر چکا ہے۔
اسرائیل نے 1981 میں واشنگٹن کی مخالفت کے باوجود صدام حسین کے دور میں عراق کے اوسیرک جوہری ری ایکٹر پر بمباری کی تھی۔ جبکہ 2018 میں 11 سال قبل شام کے ایک جوہری ری ایکٹر پر خفیہ فضائی حملے کا اعتراف کیا تھا۔
تہران کی جانب سے اسرائیل پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے 2010 میں دو ایرانی جوہری طبعیات دانوں کو قتل کیا اور اس سے ایک سال قبل ایک طبعیات دان کو اغوا بھی کیا۔
اسی طرح 2010 میں ہونے والے سائبر حملے کا الزام بھی ایران نے اسرائیل اور امریکہ پر لگایا اور کہا کہ اس کے نتیجے میں سینٹری فیوجز، جن کو وہ یورینیئم کی افزودگی کے لیے استعمال کرتا ہے، ان میں مسائل پیدا ہوئے۔