مسلم حلقوں میں متنازع برطانوی مصنف سلمان رشدی نے اپنے اُوپر ہوئے قاتلانہ حملے کے دو سال بعد دئے گئے پہلے انٹرویو میں بتایا کہ حملے کے وقت ان پر کیا بیتی اور انہیں کیا کچھ سہنا پڑا۔
سلمان رشدی نے سنہ 1981 میں اپنے ناول ”مڈ نائٹ چلڈرن“ سے شہرت حاصل کی۔ اس ناول کی صرف برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔
لیکن اُن کی چوتھی کتاب ”دی سٹینک ورسز“ (شیطانی آیات) میں اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
ایران کے اُس وقت کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے سنہ 1989 میں سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور ان کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا اعلان کیا تھا۔ یہ فتویٰ کبھی منسوخ نہیں ہوا۔ اس متنازع کتاب کے باعث مسلم دنیا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
نتیجتاِ ابتدا میں تقریباً ایک دہائی تک سلمان رشدی کو روپوش رہنا پڑا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے باعث وہ مسلح محافظ کے پہرے میں رہتے رہے۔
سلمان رشدی غیر عملی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ایک ملحد ہیں۔
اگست 2022 میں 76 سالہ انڈین نژاد برطانوی امریکی مصنف سلمان رشدی پر امریکی ریاست نیویارک میں ایک تقریب کے دوران چاقو سے حملہ کیا گیا، حملہ آور نے اُن کی گردن اور پیٹ پر وار کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسٹیج پر آیا اور 27 سیکنڈ تک جاری رہنے والے حملے کے دوران اُس نے اُن کی گردن اور پیٹ پر چاقو سے 12 وار کیے۔
انہیں فی الفور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں صحت یاب ہونے میں لگ بھگ ڈیڑھ ماہ لگا۔
بی بی سی کو دئے گئے انٹرویو میں سلمان رشدی نے کہا کہ حملے کے نتیجے میں اُن کی آنکھ باہر نکل آئی اور یہ اُن کے چہرے پر کسی ’اُبلے ہوئے نرم انڈے‘ کی مانند لٹکی ہوئی تھی۔
سلمان رشدی نے کہا کہ آنکھ کھو دینے کی بات انہیں روزانہ روز پریشان کر دیتی ہے۔
چاقو کے اس حملے میں سلمان رشدی کے جگر اور ہاتھوں کو نقصان پہنچا اور اُن کی دائیں آنکھ کی رگیں کٹ گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد اُن کی آنکھ بہت سوجی ہوئی لگ رہی تھی۔ یہ (آنکھ) میرے چہرے سے باہر لٹکی ہوئی تھی، یہ میرے گال کے اوپر اٹکی ہوئی تھی، اُبلے ہوئے نرم انڈے کی طرح۔
امریکی ریاست نیو جرسی کے 26 سالہ رہائشی ہادی مطر پر اس حملے کا الزام ہے۔ ہادی نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے اور فی الحال وہ قید میں ہیں۔
سلمان رشدی کا کہنا تھا کہ اُن کے اوپر جو کچھ بیتی اس کا مقابلہ وہ اپنی نئی کتاب ”نائف“ (چاقو) کے ذریعے کر رہے ہیں۔
سلمان رشدی کا کہنا تھا کہ نیویارک میں ہوئے حملے سے دو دن پہلے انہوں نے ڈراؤنا خواب دیکھا تھا اور اس خواب کے باعث میں وہ اُس تقریب میں نہیں جانا چاہتے تھے۔
لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ ’یہ محض ایک خواب ہی ہے۔ اس کے علاوہ تقریب کے منتظمین مجھے شرکت کے لیے اچھے پیسے دے رہے تھے اور لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ چنانچہ مجھے جانا چاہیے۔‘
اپنی نئی کتاب ’نائف‘ میں سلمان رشدی نے اپنے حملہ آور کے ساتھ ایک خیالی گفتگو کی ہے۔
وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’امریکہ میں بہت سے لوگ ایماندار ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں، مگر وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ماسک پہنتے ہیں۔ کیا یہ ان تمام لوگوں کو مارنے کی دلیل ہو سکتا ہے؟‘