پاکستان کے معروف بروکریج ہاؤس نے کہا ہے کہ عمومی دواؤں کی زیادہ سے زیادہ قیمتِ فروخت کی ڈی ریگیولیشن کے خلاف حکمِ امتناع کو کالعدم قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک میں فارما سیکٹر کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گا۔
عارف حبیب لمٹیڈ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ڈی ریگیولیشن سے فارما سیکٹر پر بالعموم اور HALEON، ABOT، AGP اور HINOON جیسی غیر لازمی (non-essential) یا عمومی دوائؤں سے اپنی آمدنی کا نصف سے زائد حاصل کرنے والے اداروں کے لیے مثبت اثرات متوقع ہیں۔
فروری میں نگراں حکومت نے رسد کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے وزارتِ صحت کی سفارشات کی روشنی میں ناگریز یا non-essential دواؤں کی ڈی ریگیولیشن کی منظوری دے کر صنعت کو دواؤں کی قیمتوں میں آزادانہ اضافے کی اجازت دی تھی۔
عارف حبیب لمٹیڈ کی رپورٹ کے مطابق ان سفارشات کے تحت لازمی دواؤں کے سوا نیشنل لسٹ کی تمام دواؤں کو ڈرگز ایکٹ مجریہ 1976 سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا اور ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 میں ضروری ترامیم کی جائیں گی۔
ڈرگ پالیسی 2028 کے تحت فارماسیوٹیکل پروڈکٹس کی مارکیٹ ریٹیل پرائس یکم جولائی 2018 سے کنزیومر پرائس انڈیکس سے جوڑ دی جائے گی۔ قیمتیں متعین کرنے کا یہ طریقِ کار دواساز کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ دواؤں کی قیمت میں اضافے کے لیے 30 دن پہلے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو مطلع کریں جبکہ اضافے کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
عارف حبیب لمٹیڈ کی رپورٹ کے مطابق ڈریپ کی پرائسنگ پالیسی 2018 دواؤں کو ناگزیر اور غیر ناگزیر کے زمروں میں رکھتی ہے۔
ضروری یا ناگزیر دواؤں کی قیمت میں سالانہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے 70 فیصد کے مساوی یا زیادہ سے زیادہ 7 فیصد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف غیر ناگزیر یا عمومی دواؤں کی قیمت میں مکمل سالانہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے مساوی یا زیادہ سے زیادہ 10 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں فارما سیکٹر کی لسٹیڈ کمپنیوں کی جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک کی آمدنی میں 42 فیصد (7 ارب 90 کروڑ روپے) کمی واقع ہوئی تھی۔ یہ کمی بنیادی طور پر منافع کمانے کی صلاحیت میں کمی اور مالیاتی لاگت میں اضافے کا نتیجہ قرار دی دی گئی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں مجموعی طور پر آمدنی میں (17 فیصد) اضافے (274 ارب 50 کروڑ روپے) کے باوجود دواساز ادارے منافع کمانے کی صلاحیت برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔