فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے۔ شاہد خاقان نے فیض حمید کو معاملہ حل کرنےکا مینڈیٹ دیا۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ مرتب کرلی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان نے فیض آباد دھرنا کی سہولت کاری میں ادارہ یا ادارہ کے فرد کے کردار سے انکار کیا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ انکوائری کمیشن نے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے جڑے محرکات کا جائزہ لے کر سفارشات تیار کیں۔
کمیشن کی 149 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ، پنجاب حکومت، آئی ایس آئی اور آئی بی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں سابق وزیرقانون زاہد حامد سے متعلق معاملات کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر 3 رکنی انکوائری کمیشن سابق آئی جی سید اخترعلی شاہ کی صدارت میں قائم تھا۔
سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر افسر خوشحال خان کمیشن کے ارکان تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے۔ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا۔
اس حوالے سے ذرائع نے مزید بتایا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنا تھے، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف نے فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی تھی۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کے مطابق فیض حمید کے دستخط پر وزیراعظم شاہد خاقان، وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتفاق کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 22 نومبر2017 کو شاہد خاقان نے فیض حمید کو معاملہ حل کرنےکا مینڈیٹ دیا، اس وقت کےآرمی چیف اورڈی جی آٸی ایس آٸی نےفیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی۔
کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدر آمد یقینی بنانے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔