آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے بونڈی جنکشن شاپنگ مال میں خنجر زنی کے واقعے کے فوراً بعد سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر ایسی پوسٹیں لگانا شروع کردیا گیا تھا جن میں بتایا گیا تھا کہ اس واقعے میں مسلم انتہا پسند ملوث ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے ایک غیر متعلق شخص کو ملزم کے طور پر شناخت کرلیا گیا۔ ایک ٹی وی نیٹ ورک کی غلطی کے باعث اس حوالے سے کنفیوژن پیدا ہوا۔
ہفتے کو سڈنی کے شاپنگ مال میں پولیس ابھی کارروائی کر ہی رہی تھی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حملہ آور کی شناخت اور مقاصد و اہداف کے بارے میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہونے لگا تھا۔
پولیس نے اتوار کو بتایا کہ اُسے اس بات کا کچھ علم نہیں کہ کوئینزلینڈ سے تعلق رکھنے والا حملہ آور جوئیل کوچی کسی خاص نظریے یا عقیدے سے متاثر تھا۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر غلط بیانی کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ حملہ آور کا تعلق کسی خاص مذہب یا سیاسی نظریے سے تھا۔
نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر انتھونی کُک نے ایک بیان میں کہا کہ اب تک ہمارے پاس اس امر کی مستند معلومات ہیں نہ ٹھوس شواہد کہ حملہ آور کا تعلق کسی مذہب یا خاص سیاسی نظریے سے تھا۔
برطانوی اخبار گارجین کا کہنا ہے کہ اب جو بھی واقعہ عالمگیر سطح پر توجہ کا مرکز بنتا ہے وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے والوں کے لیے فالوئنگ اور لائکنگ بڑھانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حقائق کے ابھرنے سے قبل سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ ہٹس اور لائکز کے لیے سوشل میڈیا یوزرز طرح طرح کے تصورات اور نظریات پیش کرکے اپنی محنت کے دام کھرے کرلیتے ہیں۔
غلط بیانی کا گمراہ کن بیانیوں سے متعلق تحقیق سے وابستہ ایستھر چین کا کہنا ہے کہ بونڈی جنکشن شاپنگ مال، سڈنی میں خنجر کے وار کرکے متعدد افراد کو قتل کرنے کے واقعے کے بعد چند ہی گھنٹوں میں اسلاموفوبیا اور اینٹی امیگریشن سے متعلق مواد کا ڈھیر لگ گیا۔ یہ مواد جانب دارانہ اور منافرت انگیز تھا۔ حملہ آور کی رنگت، وضع قطع اور ممکنہ مذہب کے بارے میں بھی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا۔
ایستھر چین کے مطابق X کے جو اکاؤنٹ ہولڈر آسٹریلیا سے باہر کے تھے انہوں نے تصدیق کیے بغیر اسلاموفوبیا کے اثرات والے تبصروں کے ساتھ اچھا خاصا مواد اپ لوڈ کیا۔ عام آدمی کو سوچنا چاہیے کہ اس نوعیت کے واقعات کسی بھی مذہب، نسل، کمیونٹی، ملک یا خطے کے خلاف جذبات بھڑکانے اور نفرت انگیز بیانیے پروان چڑھانے کے لیے کس حد تک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
برٹش چینل ٹاک ٹی وی کی پریزنٹر جولیا ہارٹلے بروئر نے مصدقہ X اکاؤنٹ پر بتایا گیا کہ حملہ آور مسلم دہشت گرد تھا۔ بعد میں جولیا نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ ’بریٹن فرسٹ‘ کے شریک بانی پال گولڈنگ کے X اکاؤنٹ سے بھی یہی بات کہی گئی اور اس پوسٹ کو لاکھوں بار دیکھا گیا۔
دی آسٹریلین مسلم ایڈووکیسی نیٹ ورک نے فیس بک پر اس واقعے سے متعلق نفرت انگیز مواد اور تبصروں کے نمونے جمع کیے۔ نیٹ ورک کے ترجمان نے بتایا کہ ان تبصروں میں مسلمانوں سے شدید نفرت کا اظہار کیا گیا۔
یاد رہے کہ ایک یہودی نوجوان بنجمن کوہن کا نام بھی اس واقعے سے جوڑا گیا جس پر آسٹریلیا کی یہودی کمیونٹی نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔