عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نئے قرض پروگرام کے لیے پاکستان کے سامنے مطالبات رکھ دیے ہیں۔
آئی ایم ایف سربراہ نے تصدیق کی کہ پاکستان فنڈ کے ساتھ گزشتہ نو ماہ کے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) کے ممکنہ فالو اپ پروگرام سے متعلق بات چیت کر رہا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی اہم مسائل حل ہونا باقی ہیں۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کا اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے موجودہ پروگرام کو کامیابی سے مکمل کر رہا ہے، معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور زر مبادلہ ذخائر میں اب اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے اہم حل طلب مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’اس راستے پر آگے بڑھنے کا عزم ہے اور ملک ممکنہ طور پر فالو اپ پروگرام کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کر رہا ہے‘۔
کرسٹالینا کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کئی ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے جس میں ٹیکس دائرہ کار میں اضافہ، معاشرے کا امیر طبقہ کس طرح معیشت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، حکومتی اخراجات کیسے چلائے جا رہے ہیں زیادہ شفاف ماحول پیدا کرنا شامل ہیں۔‘
واضح رہے کہ 19 مارچ کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ آخری جائزہ مذاکرات کی کامیابی کا اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے قرض کی آخری قسط کی مد میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر جاری ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، پاکستان کو دو اقساط کی مد میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز مل چکے ہیں۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو آخری قسط جاری کی جائے گی، آخری قسط کے بعد پاکستان کو موصول شدہ رقم بڑھ کر3 ارب ڈالرز ہو جائے گی، یہ آخری قسط ملنے کے ساتھ ہی 3 ارب ڈالرکا قلیل مدتی قرض پروگرام مکمل ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں نئے قرض کی شرائط بھی شامل تھیں جن کے مطابق نئے قرض پروگرام کے تحت ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا، کم ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو بہتر بنایا جائے گا، توانائی شعبہ کی پیداواری لاگت وصول کی جائے گی، بجلی کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کا نظام بہتر کیا جائے گا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی انتظامیہ کو بہتر کیا جائے گا، فاریکس مارکیٹ میں شفافیت لائی جائے گی، خسارے کا شکار سرکاری اداروں میں گورننس کا نظام بہتر کیا جائے گا۔