سینیر اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا ہے کہ ہم نے جس دور میں فن کی دنیا میں قدم رکھا تب ریڈیو ہی سب کچھ تھا۔ ریڈیو بولنا سکھاتا تھا۔ ریڈیو سے فلم کی طرف آنا ہوا جبکہ فلم میں کام کرنے کی خواہش تھی نہ ارادہ۔
آج ٹی وی کے پروگرام ’میری جدوجہد‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ والدین نے بہت اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ میرے والد ریونیو کے محکمے میں افسر تھے۔ 11 مئی 1940 کو ایک مذہبی گھرانے میں میری ولادت ہوئی۔ والد بہت پیار کرتے تھے اور ہر طرح سے میرا خیال رکھتے تھے۔ جب اسکول میں تھا تب پاکستان قائم ہوا۔
مصطفیٰ قریشی بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش تو حیدر آباد میں ہوئی تاہم اُن کا خاندان اصلاً سیہون شریف سے تعلق رکھتا تھا۔ وہاں نانا کا آبائی مکان بھی تھا جو لعل شہباز قلندر کے مزار تک آنے والی سڑک کی تعمیر میں کام آگیا۔ وہاں نانا نے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جو آج بھی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مدرسہ جامعۃ العربیۃ بھی قائم کیا تھا جس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
مصطفیٰ قریشی بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1953 میں میٹرک کیا۔ جب وہ یونیورسٹی میں تعلیم پارہے تھے تب، 1956 میں، حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا۔ انہوں نے ریڈیو سے پروگرام کرنا شروع کیا۔ پہلا چیک 10 روپے کا تھا جسے وہ اپنی بڑی دولت قرار دیتے ہیں۔ مصطفیٰ قریشی بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریڈیو پر انائونسر، فیچر نیریٹر، ڈراما آرٹسٹ اور دیگر حیثیتوں میں کام کیا۔ معارف القرآن کے عنوان سے مذہبی پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔
اُسی زمانے میں حسین علی شاہ فاضلانی نے ایک سندھی فلم ’پردیسی‘ کے لیے سائن کیا۔ وہ اس فلم کے ہیرو تھے اور مصطفیٰ قریشی سائیڈ ہیرو۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ اس کی کہانی معروف سندھی ادیب رشید احمد لاشاری نے لکھی تھی۔ اردو فلموں کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے مصطفیٰ قریشی تین سندھی فلموں میں کام کرچکے تھے۔
1965 کی جنگ کے دوران وطن کے لیے ریڈیو پر کام کرنے والوں نے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس جنگ کے دوران مصطفیٰ قریشی اور عبدالکریم بلوچ نے (جو بعد میں پی ٹی وی کراچی کے جنرل مینیجر بھی مقرر ہوئے) جنگ کی صورتِ حال پر ایک طنزیہ پروگرام شروع کیا جس میں وہ مسلمان کا اور عبدالکریم بلوچ ہندو (گنگو) کا کردار ادا کرتے تھے۔ اس پروگرام کے ذریعے بھارتی حکومت کے بیانات اور اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناکر اہلِ وطن کا لہو گرمایا جاتا تھا۔