افغاسنستان کی طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ روابط بڑھانے کیلئے افغانستان میں ہندوؤں اور سکھوں کو ان کی نجی زمین واپس کرنے کے لیے اقدامات شروع کردئے ہیں۔
بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ کی رپورٹ کے مطابق ، یہ جائیدادیں سابقہ مغربی حمایت یافتہ حکومت سے وابستہ جنگجوؤں سے دوبارہ حاصل کی جا رہی ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ”دی ہندو“ کو بتایا کہ ’وزیر انصاف کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ تمام جائیدادیں ان کے مالکان کو واپس کی جائیں جو سابق حکومت کے دوران جنگجوؤں نے ہڑپ کی تھیں۔‘
ایک طالبان اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ اقدام افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے، جو کہ طویل عرصے سے نقل مکانی اور پسماندگی کا شکار ہیں۔
بھارتی حکام اس پیش رفت کو ہندوستان کی طرف ایک مثبت اشارہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسی حوالے سے ایک قابل ذکر پیش رفت ہندو اور سکھ برادریوں کی نمائندگی کرنے والے رکن پارلیمنٹ نریندر سنگھ خالصہ کی واپسی ہے، جو حال ہی میں کینیڈا سے افغانستان واپس آئے تھے۔
سہیل شاہین نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تحلیل شدہ افغان پارلیمنٹ کے سابق رکن نریندر سنگھ خالصہ کی واپسی پر بھی روشنی ڈالی۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد، سکھوں اور ہندوؤں کی ایک قابل ذکر تعداد ملک چھوڑ گئی تھی جن میں نریندر سنگھ خالصہ بھی شامل تھے جو اگست 2021 میں ہندوستانی فضائیہ کے ذریعے نکالے گئے پہلے گروپ میں شامل تھے۔
ابتدائی طور پر دہلی میں رہائش اختیار کرنے کے بعد خالصہ بعد میں کینیڈا منتقل ہو گئے۔
ہندو اور سکھ کمیونٹیز طویل عرصے سے افغانستان کے آبادیاتی منظر نامے کا لازمی حصہ رہے ہیں، جو تاریخی طور پر اس کی آبادی کا تقریباً 1 فیصد ہے۔ تاہم، ان کمیونٹیز کا اخراج 1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائیوں میں سیاسی ہلچل اور سوویت حملے کے درمیان شروع ہوا جس نے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔