پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار، شاعر، ادیب اور مفکر خلیل الرحمٰن قمر کا کہنا ہے کہ میں عورتوں کے خلاف نہیں ہوں، شاید میں ہی ہوں جو عورتوں کی بے انتہا عزت اور ان کا احترام کرتا ہوں۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ میں کچھ غلط باتوں اور غلط سلوگنز (نعروں) کے خلاف کھڑا ہوا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس غلط فہمی سے نکل جائیے کہ پی ٹی وی پر جب ڈرامہ چلتا تھا تو سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں، اس وقت صرف ایک چینل تھا اور ٹی وی نیا نیا آیا تھا، اس لیے لوگ حیرت سے دیکھتے تھے، اس وقت صرف ڈرامہ ہی نہیں سب کچھ ہٹ ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے مقابلہ بڑھا تو رائٹر بھی وہی تھے، ’کمپیٹیشین (مقابلے) کے زمانے میں جب آئے تو آپ سے وہ ڈرامہ نہیں لکھا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈرامہ آپ کی تربیت نہیں کرتا بلکہ آپ کے اندر جو ہوتا ہے وہ آپ کی تربیت کرتا ہے، ’اگر آپ نے تربیتی طور پر وہ گند ایڈاپٹ (اپنانا) ہے تو پھر ڈرامے کا قصور نہیں ہے آپ کے اندر آپ کی فطرت کا قصور ہے‘۔
خلیل الرحمٰن قمر نے عورت مارچ کی خواتین کے حوالے سے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلے تو سمجھیں وہ کر کیا رہی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر دعویٰ کروں تو پاکستان میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں جو عورت کے حقوق کیلئے کھڑا ہے، ’لیکن میں گندگی ساتھ نہیں کھڑا ہوں، میں بے حیائی کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں، کھڑا کیا میں پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کروں گا اس کا‘۔
آپ کیا سوچ کر ڈرامہ لکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ میرا پورا ڈرامہ اس بنیاد اور اس اساس کے اوپر ہوتا ہے کہ ’میرا معاشرہ صرف اچھی عورت چلاتی ہے، مرد تو وہ چور ہے جو اس میں نقب لگاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ حیا اور وفا قربانی کا نام ہے، میرا ٹارگٹ ہمیشہ ایک بہادر عورت ہوتا ہے، آپ میرا کوئی بھی ڈرامہ دیکھ لیں ’میرے یہاں کی لڑکی میرے یہاں کی ہیروئن روتی نہیں ہے، وہ ایک طاقت ور عورت ہے، میں اسے یہی سکھاتا ہوں کہ تم نے رونا نہیں ہے، اپنے اندر کی طاقت کو استعمال کرنا ہے، لیکن غلط سمت میں نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ فیمنزم والوں نے اس بات پر یقین کرلیا کہ عورت کی عزت مرد کی ذلت میں پوشیدہ ہے، ایسا نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ مصنف سے پہلے ایک کامیاب بینکر تھے اور ان کے والدین ان کے لکھنے کے سخت خلاف تھے، لیکن مجھے اس طرف آنا تھا، جو اللہ نے دیا ہوتا ہے وہاں لے کر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں شاعر پہلے ہوں ڈرامہ رائٹر بعد میں ہوں۔
آپ کا اپنا لکھا ہوا سب سے پسندیدہ ڈرامہ کونسا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ میں طے نہیں کرپاؤں گا کبھی بھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو ڈرامہ یا اس کا پیغام پسند نہیں آیا تو اسے نہ دیکھیں، ’آپ کسی شریف آدمی کی بات سنیں گے بھونکتے ہوئے کتے کو؟‘
اپنے بچپن کا ایک قصہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ایک غریب بچہ تھا اور بھٹو صاحب کا بہت بڑا فین تھا، غریب بچہ تھا لیکن لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا، ایک مرتبہ ابا کو میرے ماموں نے سوٹ بھیجا تو میں نے ابا کو کہا کہ آپ اس کو سلوائیے گا مت میں اس کا بین والا کوٹ پہنوں گا، کیونکہ بھٹو صاحب بین کا کوٹ پہنتے تھے، ابا نے مجھے وہ دے دیا، اس وقت دو چار روپے کا لنڈے سے کوٹ آجایا کرتا تھا، اور سلائی 180 روپے تھی، تو ایک غریب بچے کے بارے میں یقین نہیں ہوتا کہ یہ سلایا گیا ہے، اس وقت ایک گالی ہوتی تھی کسی کی نئی چیز دیکھ کر یہ پوچھنا کہ کتنے کا لیا، میں وہ کوٹ پہن کر بڑے ٹھاٹ کے ساتھ پانچ چھ گھروں میں گیا اور کسی نے یہ نہیں مانا کہ میں نے یہ کوٹ سلوایا ہے، میں قسمیں کھارہا تھا کہ اللہ پاک کی قسم سلوایا ہے، لیکن کوئی یقین نہیں کر رہا تھا، میں غمگین ہوا اور وہ کوٹ اتار کر والدہ کے سبز رنگ کے ٹرنک میں رکھ دیا اور پھر کبھی نہیں پہنا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب میں بینک کا وائس پریزیڈنٹ تھا تو میرا بھائی ایک بہت اچھا کوٹ پہنا ہوا سامنے آیا تو میں نے پوچھا کتنے کا لیا، تو اس نے بتایا کہ 150 روپے کا لنڈے سے لیا ہے، میں نے اس سے دو کوٹ منگوا لیے، میں بینک کی میٹنگ میں بیٹھا تھا کہ چئیرمین نے میرا کوٹ دیکھ کر پوچھا خلیل صاحب کہاں سے اور کتنے میں لیا؟ تو میں نے کہا کہ 150 کا لنڈے سے منگوایا ہے، جس پر انہوں نے بے یقینی سے کہا ارے رہنے دیجئے، میں نے قسمیں کھائیں کہ لنڈے سے منگوایا ہے لیکن انہیں یقین نہ آیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج کا کلچر میری سمجھ سے باہر ہے، یہاں ایک ویڈیو بنانے والی ویڈیو اکٹھی کرنے والی تھی اسے عہدے دے دیے گئے ہیں، لوگ ڈرا دیے گئے ہیں تو سمجھیں میں بھی ڈر گیا ہوں۔