میکڈونلڈز کی جانب سے اسرائیل میں اپنی فرنچائز کو مقامی کمپنی سے واپس خریدنے کے فیصلے کے بعد اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ یہ اقدام ایک زلزلے کی طرح ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل میں میکڈونلڈز کا بائیکاٹ شروع ہو سکتا ہے۔
میکڈونلڈز کی اسرائیلی فرنچائز غزہ پر حملے کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کو مفت خانے فراہم کر رہی تھی جس پر اسلامی دنیا میں میکڈونلڈز کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہوا اور کمپنی کو دنیا بھر میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
مسلمان ممالک کے بائیکاٹ سے تنگ آ کر میکڈونلڈز نے اسرائیل میں اپنی پوری فرنچائز واپس خریدنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم آن لائن اسرائیلی جریدے وائے نیٹ نیوز کے مطابق اسرائیلی کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ وہ اس اقدام پر سخت حیران ہیں اور یہ ایک زلزلے کی طرح ہے۔
جریدے کے مطابق ان افراد کا کہنا تھا کہ یہ اتنا بڑا معاملہ ہے کہ صدر بائیڈن کو خود اس پر توجہ دینی ہوگی غالبا امریکہ میں میکڈونلڈز کے دفتر میں موجود لوگ سمجھتے نہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
ان اسرائیلی کاروباری افراد کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے اسرائیل میں میکڈونلڈز کی چین کو خریدنے کے پیچھے متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار ہوں۔
سی این بی سی کے مطابق عرب ممالک میں میکڈونلڈز کی فرنچائزز کی فروخت میں 50 سے 90 فیصد کمی آ چکی ہے۔
اسرائیلی جریدے کے مطابق میکڈونلڈز اب مشکل میں پڑ چکا ہے کیونکہ فرنچائز واپس خریدنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ اسرائیلی فوج کو ڈونیشن دینے سے انکار کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل میں میکڈونلڈز کے بائیکاٹ کے مطالبات سامنے آئیں گے۔
میکڈونلز اسرائیل میں تمام 225 ریسٹورنٹس واپس خرید رہا ہے جن کی مجموعی قیمت 43 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔
اسرائیلیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پورا معاملہ میکڈونلڈز کے مقامی مالک عمری پدان نے اپنے فائدے کے لیے شروع کیا کیونکہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور اب ریسٹورنٹس کی فروخت سے ہونے والی رقم سے کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔