وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 10 پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے سینئر افسران کو انسداد چوری اور ریکوری مہم میں معاونت فراہم کرنے کیلئے تعینات کر دیا ہے جبکہ وزیر توانائی کی جانب سے 23 اپریل 2024 تک چوری روکنے کی سخت وارننگ دی گئی ہے۔
بزنس ریکارڈر نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ایف آئی اے نے اپنے سینئر افسران کو پانچ ڈسکوز کے سی ای اوز کے ساتھ ”ڈسکوز میں مینجمنٹ کو مضبوط بنانے“ کے لئے تعینات کیا ہے تاکہ ان کے ملازمین کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ ان کی سرگرمیوں یا بجلی چوروں کے ساتھ ملی بھگت پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ ریکوری کے حوالے سے وزیر توانائی سردار اویس خان لغاری ان خیالات کا اظہار کرچکے ہیں کہ 6 ماہ میں ریکوری صرف 5.5 ارب روپے رہی جبکہ نگران وزیر اور پاور ڈویژن نے 89 ارب روپے کی ریکوری کا دعویٰ کیا تھا۔
یاد رہے کہ یہی مبالغہ آمیز ریکوری کے اعداد و شمار حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والی آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ شیئر کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے کے مطابق 11 اکتوبر 2023 کو متعلقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز (اے ڈی جیز) کی سفارش پر متعلقہ ڈسکوز کے افسران کی بجلی چوری میں صارفین کے ساتھ غیر قانونی ملی بھگت کو ختم کرنے کے لیے انسداد چوری اور ریکوری مہم میں ڈسکوز کے سی ای اوز کے ساتھ افسران کو منسلک کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے تمام ڈسکوز کے چیئرمین بورڈز اور سی ای اوز کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ ایس ایز، ایکس ای اینز، ایس ڈی اوز اور متعلقہ فیلڈ اسٹاف سے سرٹیفکیٹ حاصل کریں کہ 23 اپریل 2024 تک ان کے دائرہ اختیار میں کوئی چوری (کسی بھی قسم کی) نہیں ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق، وزیر نے ملک میں ہر طرح کی بجلی چوری کو روکنے کے لئے 23 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی چوری میں ملوث افسران کو سزا دینے کے لیے قوانین میں ترمیم کی جائے گی تاکہ کوئی بھی بجلی چور سزا سے بچ نہ سکے۔ انہوں نے بجلی چوری کی روک تھام کے لئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ سی ای اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ 23 اپریل 2024 تک فراہم کیا جانے والا سرٹیفکیٹ درست اور زمینی صورتحال کے مطابق ہو۔
وفاقی وزیر نے متنبہ کیا کہ جانچ پڑتال کے دوران کسی بھی جرم، عدم مطابقت یا متضاد شواہد کی صورت میں ایسے مجرم / نادہندگان / اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی اور تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
اپنے خط میں وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے بجلی چوری کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا عزم بجلی کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ 7 ستمبر 2023 کو انسداد چوری مہم کا آغاز ہوا اور اب تک صرف 5.5 ارب روپے وصول کیے گئے جبکہ 342 ملازمین کو معطل اور 27 کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوششیں اصل چوری اور نقصان کے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتیں اور تمام ڈسکوز میں مزید محنت کی ضرورت ہے، خاص طور پر بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ڈسکوز (ہیسکو) میں۔ سیپکو، پیسکو، کیسکو اور ٹیسکو، جن میں ان ڈسکوز کو 723 ارب روپے کے بلنگ کے مقابلے میں تقریبا 438 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ بجلی کے شعبے کے لیے یہ صورتحال نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی مالی طور پر قابل عمل ہے۔
یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ نسبتا بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ڈسکوز (آئیسکو، لیسکو، فیسکو گیپکو اور میپکو) کو بھی 3,058 ارب روپے کی بلنگ کے مقابلے میں 151 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
اس تشویشناک صورتحال میں ڈسکوز کو چوری اور دیگر بے ضابطگیوں کی وجہ سے مجرم صارفین سے 589 ارب روپے کی وصولی کے لئے اپنی کوششوں کو کئی گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے عمل نہ صرف نقصان دہ ہیں بلکہ تقسیم کے نظام پر بوجھ بھی ڈال رہے ہیں۔