رانا ثنا اللہ نے آج کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی کی مشروط حمایت کردی۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر عمران خان ملک کی بہتری کے لئے مل بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں تو انکی رہائی پر غور کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس کے چانسز منفی صفر ہیں۔ اگر وہ مل بیٹھ کر بات کریں تو ب ان کے اندر یا باہر رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان نہ سیاست دان ہیں نہ ہی لیڈر ہیں یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ عمران خان مسلط ہوئے ہیں، عمران خان نے کبھی نہ کسی سیاسی جماعت سے بات کی ہے نہ یہ کبھی بات کرنے کو تیار ہیں وہ کسی دوسری جانب بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمران خان کو سیاسی برادری کے ساتھ بیٹھنا چاہیئے۔ لیکن عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں۔
راناثنااللہ کا عمران خان کے حوالے سے کہنا تھا کہ عمران خان 10 سال سے سیاسی عدم استحکام کاسبب بنےہوئےہیں جس کی سزا ملک نے بھگتی ہے۔ عمران خان کو لانے کے لئے ہماری پارٹی کی ساخت خراب کی گئی عدلیہ کو نقصان پہنچایا گیا عمران نےاپنےدورمیں عوام کیلئےکچھ نہیں کیا۔ اپوزیشن کو ہٹانا چاہا اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات خراب کئے۔سیاسی عدم استحکام چلتارہاتوملک کانقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کو کون لے کر آیا تھا 2018 میں کسی کے نانا کسی کو بیٹھنا جائز اور 2024 میں نا جائز ہے، اس قسم کی باتیں چھوڑیں اگر ملک بچانا ہے تو میاں نواز شریف کے نسخے پر عمل کریں۔
راناثنااللہ نے آج کے پروگرام ے گفتگو میں کہنا تھا کہعمران خان کا توشہ خانہ کیس سو فیصد درست ہے عمران خان نے وہ جرم کئے ہیں جن کا ان پر الزام ہے لیکن عدالت کے ٹرائل میں لوپ ہول اور پروسیجل غلطیاں موجود ہیں۔
راناثنااللہ کا مزید کہنا تھا کہ عوامی فیصلےکےمطابق حکومت وجودمیں آچکی ہے، عمران خان کوشکایت ہےتوٹربیونل موجودہیں عمران خان کاسیاسی بندوبست ہوناچاہئے، اس کا مطلب عمران خان کا سیاسی وجود ہے، عمران خان پاکستان میں عدم استحکام کی سیاست کررہےہیں جس کا مقصد کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ہے۔
راناثنااللہ کا ججز کے خطوط کے معاملے پر کہنا تھا کہ ججزکےخطوط مجھے شرارت لگتی ہے، اور شرارت پی ٹی آئی یا اس کےہمدرد کر رہے ہیں، ایجنسیزمحنت کریں توان تک پہنچاجاسکتا ہے۔
راناثنااللہ نے محسن نقوی کے وزیر اعظم بنے کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ جو نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب، سینیٹر اور کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بن سکتا ہے تو وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ محسن نقوی اگر چاہیں تو صدر بھی بن سکتے ہیں۔ محسن نقوی وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی تو وہ بن گئے۔ محسن نقوی جو چاہیں وہ بن سکتے ہیں۔
راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ میں اپنی قیادت سے ناراض نہیں ہوں میں نے نواز شریف اور مریم نواز کا فیصل آباد میں کھلے دل سے استقبال کرتا اور ایک بار نہیں 10 بار کرتا لیکن میں فیصل آباد میں موجود نہیں تھا۔ میں ناراض نہیں فکرمندہوں یہ حکومت مسلم لیگ کی نہیں، الیکشن میں ن لیگ کواکثریت نہیں ملی، پیپلزپارٹی حکومت سےباہرنہیں، اپناحصہ لے کر بیٹھی ہے جیسے آسان سمجھا لے لیا جو مشلکل لگا اس کو چھوڑ دیا۔ ملک میں مخلوط حکومت ہے، مخلوط حکومت میں سب پرذمہ داری آتی ہے
راناثنااللہ نے کہا کہ آصف علی زرداری کو میرے لئے کچھ نہیں کرنا چاہیئے میں اپنی جماعت کے ساتھ ہوں جو میری جماعت مجھے بنانا چاہیے گی میں بن جاؤں گا۔ میں پارٹی سے باہر نہیں ہوں پارٹی میں ہوں اور میں پارٹی ڈسپلین میں رہ کر کام کر رہا ہوں، ضمنی الیکشن میں جس کا حق ہے وہ لے میں کسی ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لےرہا، یہ ضروری ہے کہ آپ نے ہر وقت حکومت میں رہنا ہے کیا کوئی ہر وقت حکومت میں رہ سکتا ہے ؟ اگر آپکی یہی عادت اور سوچ ہے تو یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔
راناثنااللہ کا مزید کہا کہ سیاسی کارکن کا کام اپنی رائے دینا اور بات کرنا ہے اور ہم سب نواز شریف کے قیادت میں متحد ہیں، حکومت میں غیرمنتخب لوگوں کونہیں ہوناچاہئے، نوازشریف جوفیصلہ کریں گےمجھےقبول ہوگا بھلے وہ مجھے ٹھیک لگے یا غلط۔
نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ کسی کونئی جماعت بنانی ہے تو ملک کا آئین میں اجازت ہے۔ لیکن میرےخیال میں نئی سیاسی جماعت کی گنجائش نہیں ہے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ شہبازشریف میں مدت پوری کرنےکی صلاحیت ہے، وہ سب کو آن بورڈ کے کر چلتے ہیں، شہباز شریف کو ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے 2 سال اور تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون بھی چاہیئے۔