یو اے ای کے چند کاروباری ادارے بچت اسکیم کے ذریعے پانچ سال میں اپنے ملازمین کو کروڑ پتی بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
لوگ خود بھی انفرادی سطح پر اپنے اہل خانہ کے لیے بچت کر رہے ہیں تاکہ پانچ سے سات سال میں وہ بھی مالی طور پر استحکام پاکر کروڑ پتی ہوسکیں۔
خلیج ٹائمز کے مطابق متحدہ عرب امارات کی چند کمپنیاں اپنے انتہائی باصلاحیت ملازمین کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتیں اور کروڑ پتی اسکیم جیسی پُرکشش پیشکشیں کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں نیشنل بونڈز کو بھی بروئے کار لایا جارہا ہے۔
’مائی ون ملین‘ اسکیم بھی مقبولیت سے ہم کنار ہو رہی ہے۔ یہ پلان گزشتہ اکتوبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے تحت کاروباری اداروں کے مالکان اور ملازمین ہر ماہ ایک خاص رقم جمع کراتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والے منافع کو دوبارہ انویسٹ کردیا جاتا ہے۔ یوں ملازمین 10 لاکھ درہم کی منزل تک آسانی اور تیزی سے پہنچتے ہیں۔
نیشنل بونڈز کے گروپ سی ای او محمد قاسم العلی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنی بچت اس اسکیم میں لگارہے ہیں تاکہ ملینیئر ڈرا میں اپنا نام شامل کراسکیں۔
ایک کمپنی نے مائی ون ملین منصوبے میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی۔ طے پایا کہ ملازمین 7500 درہم جمع کرائیں گے اور اتنی ہی رقم کمپنی بھی دے گی۔ ایک اور کمپنی ماہانہ 10 ہزار روپے دے رہی ہے اور باقی رقم ملازمین دیتے ہیں۔ اس صورت میں اسٹاف کے سینئر ارکان تیزی سے لکھ پتی، کروڑ پتی بن سکتے ہیں۔ محمد قاسم العلی کہتے ہیں کہ کمپنیاں یہ طریقہ اپناکر اپنے بہترین ملازمین کو روکنا چاہتی ہیں۔ بچت اسکیم اپنانے والی بیشتر کمپنیاں درمیانے حجم کی ہیں جنہیں ٹیلنٹ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ریکروٹمنٹ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ یو اے ای اور پڑوسی ریاستوں میں مقامی ٹیلنٹ کو بھی بروئے لانے پر بھی زور دیا جارہا ہے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں ٹیلنٹ کے حصول کی جنگ جاری ہے۔
مینا ریجن میں مرسر کے پرنسپل فار کریئرز اینڈریو ایلزین کہتے ہیں کہ مقامی اداروں کو اندرونِ ملک باصلاحیت افرادی قوت کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کی کمپنیاں بھی باصلاحیت افرادی قوت کے حصول کے لیے غیر معمولی مسابقت کا سامنا کر رہی ہیں۔
اینڈریو ایلزین کہتے ہیں کہ طویل المیعاد اور قلیل المیعاد انسینٹیوز کے بارے میں بہت پوچھا جارہا ہے تاکہ کمپنیاں اپنے لیے انتہائی ضروری سمجھی جانے معیاری افرادی قوت کو کہیں اور جانے سے روک سکیں۔ کھڑکیاں اور دورازے بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے 7 درمیانی سطح کے ملازمین کے لیے یہ اسکیم لی ہے۔ یہ کمپنی ٹیکنیشینز اور عام ورکرز کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔ یہ ملازمین 4 ہزار درہم دیں گے جبکہ باقی رقم کمپنی دے گی تاکہ متعلقہ افراد 7 سال میں ملینیئر بن سکیں۔
کووڈ کی وبا کے بعد یو اے ای کے باشندے بچت کے عادی ہوچکے ہیں کیونکہ بچت کی اہمیت اُن پر واضح ہوچکی ہے۔ وہ بجٹ کے تحت جی رہے ہیں جے نتیجے میں بچت ہو رہی ہے اور قومی خزانہ توانا تر ہوتا