برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ نے ہندوستانی اور پاکستانی انٹیلی جنس آپریٹو کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی حکومت نے غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے مبینہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کی ایک وسیع حکمت عملی کے تحت پاکستان میں متعدد افراد کو قتل کیا۔
دی گارڈین نے دونوں ممالک کے انٹیلی جنس حکام کے انٹرویوز کیے اور پاکستانی تفتیش کاروں سے دستاویزات حاصل کئے، جن میں واضح کیا گیا تھا کہ کس طرح بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی نے 2019 کے بعد مبینہ طور پر بیرون ملک کئی قتل کئے۔
بھارتی انٹیلی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) پر براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کا کنٹرول ہے۔
رپورٹ کے مطابق دہلی نے ان لوگوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل کیا جنہیں وہ بھارت کا دشمن سمجھتی ہے۔
بھارت کی جانب سے کئے گئے قتل کے حوالے سے رپورٹ میں کئے گئے تازہ دعوے 2020 سے اب تک تقریباً 20 ہلاکتوں سے متعلق ہیں، یہ قتل پاکستان میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے کیے گئے۔
حالانکہ بھارت پہلے غیر سرکاری طور پر ان ہلاکتوں سے منسلک رہا ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے پاکستان میں مبینہ کارروائیوں پر بات کی ہو، جبکہ تفصیلی دستاویزات میں را کے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ان الزامات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خالصتان تحریک سے منسلک سکھ علیحدگی پسندوں کو ہندوستانی غیر ملکی کارروائیوں میں پاکستان اور مغرب دونوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
گارڈین کے مطابق، پاکستانی تفتیش کاروں نے بتایا کہ یہ ہلاکتیں ہندوستانی انٹیلی جنس کے سلیپر سیلز کی طرف سے کی گئیں جو زیادہ تر متحدہ عرب امارات سے کام کر رہے تھے۔ 2023 میں ہوئی ہلاکتوں میں اضافے کا سہرا ان سیلز کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیا گیا، جن پر مقامی مجرموں یا غریب پاکستانیوں کو قتل کے لیے لاکھوں روپے دینے کا الزام ہے۔
گارڈین کا کہنا ہے کہ ’بھارتی ایجنٹوں نے مبینہ طور پر فائرنگ کرنے کے لیے جہادیوں کو بھی بھرتی کیا، اور انہیں یقین دلایا کہ وہ ”کافروں“ کو مار رہے ہیں‘۔
دو ہندوستانی انٹیلی جنس افسران کے مطابق، بھارتی خفیہ ایجنسی کی جانب سے بیرون ملک مفرور افراد پر توجہ مرکوز کرنے کا رجحان 2019 میں پلوامہ حملے سے شروع ہوا تھا۔
ایک ہندوستانی انٹیلی جنس آپریٹیو نے کہا، ’پلوامہ کے بعد، ملک سے باہر لوگوں کو نشانہ بنانے کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا، کہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کر سکیں یا کوئی خلل پیدا کر سکیں، ہم انہیں نشانہ بنائیں‘۔
بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار نے کہا کہ ’ اس طرح کے آپریشن کرنے کے لیے حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے منظوری درکار ہے’۔
اس بھارتی افسر نے کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان نے اسرائیل کی ”موساد“ اور روس کی“ کے جی بی“ جیسی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تحریک حاصل کی ہے، جو غیر ملکی سرزمین پر ماورائے عدالت قتل سے منسلک ہیں۔
گارڈین سے بات کرتے ہوئے دو الگ الگ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ انہیں 2020 سے لے کر اب تک 20 ہلاکتوں میں ہندوستان کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
انہوں نے گواہوں کی شہادتیں، گرفتاری کے ریکارڈ، مالیاتی بیانات، واٹس ایپ پیغامات اور پاسپورٹ سمیت سات مقدمات میں پہلے سے نامعلوم انکوائریوں سے متعلق شواہد کی طرف اشارہ کیا، تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر اہداف کو مارنے کے لیے بھارتی جاسوسوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کی تفصیلات ان شواہد میں ظاہر ہوتی ہیں۔
گارڈین انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ 2023 میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جس میں سے بھارت پر تقریباً 15 افراد کی مشتبہ ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا، جن میں سے زیادہ تر کو نامعلوم بندوق برداروں نے قریب سے گولی ماری تھی۔
گارڈین کو دئے گئے جواب میں، ہندوستان کی وزارت خارجہ نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے، اپنے ایک پہلے دئے گئے بیان کا اعادہ کیا کہ وہ الزامات ’جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ“ تھے۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ایئر انڈیا کی پرواز کی ہائی جیکنگ میں ملوث کشمیری ظہور مستری کے مبینہ ساتھی زاہد اخوند کے قتل کے حوالے سے پاکستانی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ایک را ہینڈلر نے مبینہ طور پر زاہد اخوند کی نقل و حرکت اور محل وقوع کے بارے میں معلومات کے لیے کئی مہینوں تک ادائیگیاں کیں، اس کے بعد اس نے مبینہ طور پر اس سے براہ راست رابطہ کیا، ایک صحافی ہونے کا بہانہ کیا جو ایک انٹرویو کرنا چاہتا تھا، تاکہ اس کی شناخت کی تصدیق کی جا سکے۔
اس کے علاوہ مارچ 2022 میں کراچی میں متعدد قتل کرنے کے لیے افغان شہریوں کو مبینہ طور پر لاکھوں روپے ادا کیے گئے۔
پاکستان کی طرف سے جمع کیے گئے شواہد کے مطابق، یہ قتل باقاعدگی سے متحدہ عرب امارات میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہ کر کیے گئے تھے، جہاں را نے اپنے سلیپر سیل قائم کیے تھے جو آپریشن کے مختلف حصوں کو الگ الگ ترتیب دیتے تھے اور قاتلوں کو بھرتی کرتے تھے۔
پاکستانی تفتیش کاروں نے الزام لگایا کہ قتل کرنے کے لیے اکثر مجرموں یا غریب مقامی لوگوں کو لاکھوں روپے ادا کیے جاتے ہیں۔
گارڈین کے مطابق دستاویزات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قاتلوں کو ادائیگیاں زیادہ تر دبئی کے ذریعے کی گئیں، جبکہ قتل کی نگرانی کرنے والے را ہینڈلرز کی میٹنگیں نیپال، مالدیپ اور ماریشس میں بھی ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی اہلکار نے کہا، ’پاکستان میں قتل عام کرنے والے بھارتی ایجنٹوں کی یہ پالیسی راتوں رات تیار نہیں کی گئی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں ان سلیپر سیلز کو قائم کرنے کے لیے تقریباً دو سال تک کام کیا ہے جو اب ان قتلوں کا انتظام دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد، ہم نے بہت سے قتل کا مشاہدہ کرنا شروع کیا‘۔
جیش محمد کے کمانڈر اور ہندوستان کے سب سے بدنام جنگجوؤں میں سے ایک شاہد لطیف مبینہ طور پر مارنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ بالآخر دستاویزات کے مطابق ایک 20 سالہ ناخواندہ پاکستانی نے اکتوبر میں پاکستان میں اس قتل کو انجام دیا جسے مبینہ طور پر یو اے ای میں را کے ذریعے بھرتی کیا گیا تھا، جہاں وہ ایمیزون پیکنگ کے گودام میں کم سے کم تنخواہ پر کام کر رہا تھا۔
پاکستانی تفتیش کاروں نے پایا کہ اس شخص کو مبینہ طور پر ایک خفیہ بھارتی ایجنٹ نے شاہد لطیف کا سراغ لگانے کے لیے 15 لاکھ پاکستانی روپے ادا کیے تھے اور قتل کے بعد اسے ڈیڑھ کروڑ پاکستانی روپے اور متحدہ عرب امارات میں اس کی اپنی کیٹرنگ کمپنی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
نوجوان نے شاہد لطیف کو سیالکوٹ کی ایک مسجد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد اسے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
گارڈین کے مطابق عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر بشیر احمد پیر اور بھارت کی مطلوب ترین فہرست میں شامل سلیم رحمانی کے قتل کی منصوبہ بندی بھی مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات سے کی گئی تھی، دبئی سے لین دین کی رسیدیں قاتلوں کو لاکھوں روپے کی ادائیگی ظاہر کرتی ہیں، سلیم رحمانی کی موت کو پہلے ایک مشتبہ مسلح ڈکیتی کا نتیجہ بتایا گیا تھا۔
زیادہ تر معاملات میں، اس طرح امووت کے بارے میں عوامی معلومات بہت کم رہی ہیں۔ تاہم، پاکستانی ایجنسیوں نے گارڈین کو ثبوت دکھائے کہ انہوں نے بند دروازوں کے پیچھے تحقیقات اور گرفتاریاں کی ہیں۔
دہلی میں انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ منیجمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اجے ساہنی نے گارڈین سے گفتگو میں کہا کہ ان کی تنظیم نے 2020 سے پاکستان میں نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں 20 مشتبہ ہلاکتیں ریکارڈ کی ہے، حالانکہ دو کی ذمہ داری مقامی عسکریت پسند گروپوں نے قبول کی تھی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ، محمد سائرس سجاد قاضی نے جنوری میں ایک پریس کانفرنس میں دو ہلاکتوں کا عوامی طور پر اعتراف کیا تھا، جس میں انہوں نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ وہ پاکستان میں ’ملکی اور ماورائے عدالت قتل‘ کی ’نفیس اور مذموم‘ مہم چلا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ان الزامات کو دوسروں کی طرف سے شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دیرینہ دشمنی ہے جو چار بار جنگ میں جا چکے ہیں اور اکثر ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات لگا چکے ہیں۔
گزشتہ تین سالوں میں مبینہ طور پر را کے ذریعے پاکستان میں مارے جانے والے افراد کی اکثریت لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے عسکریت پسند گروپوں سے وابستہ افراد کی ہے۔
ستمبر میں، کینیڈا کے وزیر اعظم، جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ”معتبر الزامات“ ہیں کہ ہندوستانی ایجنٹوں نے ایک ممتاز سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، جسے وینکوور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہفتوں بعد، امریکی محکمہ انصاف نے ایک چارج شیٹ جاری کی جس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کس طرح ایک ہندوستانی ایجنٹ نے نیو یارک میں ایک ہٹ مین کو ایک اور سکھ کارکن کو قتل کرنے کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کی، جسے بعد میں گروپتونت سنگھ پنن کا نام دیا گیا۔
دونوں افراد خالصتان تحریک کے بڑے حامی رہے تھے، جو ایک آزاد سکھ ریاست بنانا چاہتی ہے اور ہندوستان میں پابندی کا شکار ہے۔
بھارت نے نجار کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی، جب کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ، پنوں کی سازش کے بارے میں بھارت کی اپنی تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے ایک بےقابو ایجنٹ نے انجام دیا تھا جو اب را کے لیے کام نہیں کر رہا تھا۔
ایک ہندوستانی انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق، دہلی نے حال ہی میں کینیڈا اور امریکہ کی جانب سے اپنے الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کا حکم دیا۔ اور رواں سال اب تک کوئی مشتبہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔
امریکی اور کینیڈین کیسز سے پہلے گزشتہ مئی میں ایک اعلیٰ سطحی خالصتانی رہنما پرمجیت سنگھ پنجوار کو لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
پاکستانی تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان کے قتل سے ایک ماہ قبل پنجوار کو خبردار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور کہا کہ پاکستان میں رہنے والے ایک اور خالصتانی کارکن کو بھی اپنی جان کو خطرات لاحق ہیں۔
پنجوار کا قتل ان لوگوں میں شامل ہے جن کے بارے میں مبینہ طور پر بھارتی کارندوں نے ”مذہبی طریقہ“ قرار دیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق، ہندوستانی ایجنٹوں نے داعش کے نیٹ ورکس اور طالبان سے منسلک یونٹس میں دراندازی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا، جہاں انہوں نے پاکستانی اسلام پسند بنیاد پرستوں کو بھرتی کیا اور تیار کیا تاکہ ہندوستان کو مطلوب افراد کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا جا سکے کہ وہ ”کافروں“ کے مقدس قتل کا کام کر رہے ہیں۔
ان ایجنٹوں نے مبینہ طور پر ہندوستانی ریاست کیرالہ کے سابق داعش جنگجوؤں سے مدد مانگی تھی جو داعش کے لیے لڑنے کے لیے افغانستان گئے تھے لیکن 2019 کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور انہیں سفارتی ذرائع سے واپس لایا گیا تاکہ ان جہادی نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
پاکستانی ایجنسیوں کی تحقیقات کے مطابق، پنجوار کا قاتل، جسے بعد میں گرفتار کرلیا گیا تھا مبینہ طور پر سوچتا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی سے منسلک ”بدری 313 بٹالین“ کی ہدایات پر کام کر رہا تھا اور اسے اسلام کے دشمن کو قتل کر کے خود کو ثابت کرنا تھا۔
گزشتہ سال ستمبر میں لشکر طیبہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر ریاض احمد کی ہلاکت کو مبینہ طور پر را نے اسی طرح سے انجام دیا تھا۔
پاکستان کا خیال ہے کہ ریاض کے قاتل کو ٹیلی گرام چینل کے ذریعے ان لوگوں میں بھرتی کیا گیا تھا جو داعش کے لیے لڑنا چاہتے تھے۔
گارڈین کے مطابق پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ قاتل لاہور سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ محمد عبداللہ تھا۔ اس نے مبینہ طور پر پاکستانی تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر اس نے پاکستان میں ایک ”کافر“ کو مارنے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اسے داعش کے لیے لڑنے کے لیے افغانستان بھیجا جائے گا۔
عبداللہ نے راولاکوٹ کی ایک مسجد میں صبح کی نماز کے دوران ریاض احمد کو گولی مار کر قتل کر دیا، لیکن بعد میں پاکستانی حکام نے اسے گرفتار کر لیا۔
را کے ایک سابق سینئر اہلکار جو مودی کی وزارت عظمیٰ سے پہلے خدمات انجام دے چکے ہیں، انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ماورائے عدالت قتل ایجنسی کی مرضی تھے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ قومی سلامتی کے مشیر کے علم میں لائے بغیر کچھ نہیں کیا جاتا، جو اس کی اطلاع وزیراعظم کو دیتا ہے اور موقع پر وہ براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔
را کے سابق اہلکار نے دعویٰ کیا کہ زیادہ امکان ہے کہ یہ ہلاکتیں خود پاکستان نے کی ہوں، اس خیال کی بازگشت بھارت میں دوسروں نے بھی دی ہے۔
تاہم، پاکستانی ایجنسیوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے پاکستان میں رہنے والے دو درجن سے زائد بھارت مخالف لوگوں کی فہرست کی طرف اشارہ کیا جنہیں انہوں نے حال ہی میں ان کی جانوں کو لاحق خطرات کی براہ راست وارننگ جاری کی تھی اور انہیں روپوش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
گارڈین کے مطابق پاکستان میں تین افراد نے کہا کہ انہیں یہ وارننگ دی گئی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنہوں نے دھمکیوں پر کان نہیں دھرے اور اپنے معمولات کو جاری رکھا اب وہ مر چکے ہیں۔