نو منتخب ممبران قومی اسمبلی نے انسداد تمباکو نوشی اور سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز کی حمایت کی ہے۔
گزشتہ روزمختلف سیاسی جماعتوں کے نومنتخب ایم این ایز کے اعزاز میں منعقدہ افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے، عورت فانڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نعیم احمد مرزا نے بجٹ خسارہ کم کرنے اور زندگی بچانے کے لیے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سال 2024 میں تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔
عورت فانڈیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئے روز پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی لگا کر عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے سگریٹ پر فیڈر ل ایکسائز ڈیوٹی (FED) میں 26 فیصد تک اضافہ کرے۔
پاکستان اس وقت سگریٹ کے لیے دو درجے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) اسٹرکچر کے ساتھ چل رہا ہے۔یہ درجہ بندی قیمت کے لحاظ سے کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ ٹیکس لگا کر تمباکو کی کھپت کو کم کیا جاسکتا ہے جس سے تمباکو سے متعلقہ بیماریوں سے منسلک معاشی بوجھ بھی کم ہوسکے گا۔
تمباکو سے پاک بچوں کے لیے مہم کے کنٹری ایڈوائزر انیس احمد نے ایم این ایز کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سال 2022-23 میں خاطر خواہ اضافے کے بعد، ریٹیل قیمتوں میں ایف ای ڈی کا شیئر بالترتیب 48 فیصد، جبکہ نچلے اور اونچے درجے کے لیے 68 فیصد تک پہنچا ہے۔ تاہم، سال 2023-24 میں ایف ای ڈی کے شیئرز، شرح میں ایڈجسٹمنٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے، آمدنی اور صحت عامہ کی کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
عورت فانڈیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ 2024 میں ایف ای ڈی میں 26.6 فیصد اضافہ کیا جائے تو یہ اقدام 19.8 فیصد اخراجات کو واپس وصول کرسکتا ہے، جس سے صحت کے مسائل پر آنے والا بوجھ اور ٹیکس کی آمدنی کے درمیان فرق کم ہو جائے گا۔
ایف ای ڈی میں 26.6 فیصد اضافہ ممکنہ طور پر 517,000 تمباکو نوش افراد میں کمی لاکر ٹیکس ریونیو میں 12.1 فیصد اضافہ اور صحت کے اخراجات میں 19.8 فیصد کمی کرسکتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ سال 2023-24 کے بعد حکومت کو چاہیے کہ وہ خودکار ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے لاگت کی وصولی کو تمباکو ٹیکس کی پالیسیوں میں ضم کرے، تمام سگریٹ برانڈز پر یکساں ایف ای ڈی نافذ کرے اور اور اگلے تین سال کے لیے ٹیکس میں اضافہ تجویز کرے۔
عورت فانڈیشن میں انسداد تمباکو مہم چلانے والی ڈائریکٹر پروگرامزمحترمہ ممتاز مغل نے بتایا کہ تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 31.9 ملین افراد جو کہ بالغ آبادی کا تقریبا 19.7 فیصد ہیں، تمباکو نوشی کا شکار ہیں۔
انہوں نے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ تمباکو نوشی سے پاکستان میں سالانہ 337,500 اموات ہوتی ہیں، جو ملک کی سالانہ جی ڈی پی کا 1.4 فیصد ہے۔
اس موقع پر ایم این اے محترمہ زیب جعفر نے سگریٹ اور تمباکو کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بچوں کے حقوق کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی۔
رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے کہا کہ جب سے وہ سینیٹ آف پاکستان کی رکن ہیں بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور انہیں پارلیمنٹ میں بچوں کے حقوق کی قانون سازی کے اپنے مشن کو جاری رکھنے پر خوشی ہوگی۔
سندھ کی سابق صوبائی وزیر برائے خواتین سیدہ شہلا رضا نے بھی انسداد تمباکو مہم کی حمایت کی۔
دیگر ایم این ایز نعیمہ کنول، شازیہ صوبیہ، نعیمہ کشور خان، تھر سے اقلیتی ایم این اے نیلم، مہرین رزاق بھٹو اور ماہ جبین عباسی نے بھی خطاب کیا اور انسداد تمباکو مہم اور بچوں کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔