تیل، بجلی، گیس اور کوئلے کی اونچی قیمتوں سے پریشان کراچی کے صنعت کاروں کی دلچسپی شمسی توانائی میں بڑھ گئی، تاہم، جگہ کی کمی اور محدود سرمایہ سولرائزیشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔
بجلی اور گیس کی طویل بندش اور بلند قیمتیں، ماحول کے لئے نقصان دہ فوسل فیول کے باعث صنعت کاروں نے انڈسٹریز میںسولر انرجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔
تاہم، ان کیلئے سولر سسٹم کی خریداری اور تنصیب کے لیے محدود سرمایہ اور جگہ بڑی رکاوٹیں بن گئی ہیں۔
تاجر برادی کا کہنا ہے کہ انڈسٹری کبھی بھی لوڈ شیڈنگ پر نہیں چلا کرتی، انڈسٹری کو متواتر بجلی، پانی اور گیس درکار ہوتی ہے، ہم مجبور ہوکر اس متبادل پر جا رہے ہیں۔
محکمہ توانائی کے مطابق سندھ حکومت ٹرانسمیشن لائن کے تحت بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) ریگولرائز کر رہی ہے جس سے صنعتوں کو سستی بجلی دستیاب ہوگی۔
محکمہ توانائی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گرڈ کا ایک یونٹ 40 سے 50 روپے میں پڑتا ہے جبکہ سولر کا یونٹ 10 سے 12 روپے میں پڑتا ہے، انڈسٹری میں اگر یونٹ کی لاگت کم ہوگی تو مصنوعارت بھی سستی ہوں گی۔
صنعتوں میں سولر سسٹم کی انسٹالیشن کرنے والی کمپنی کے سی ای او ایم نعیم کا کہنا ہے کہ کراچی میں پانچ سے دس فیصد صنعتیں سولر پر منتقل ہوچکی ہیں، جبکہ رواں سال مزید پانچ سے دس فیصد منتقل ہو جائیں گی۔
سولر پلیٹس کی قیمتوں میں کمی بھی انڈسٹریز میں سولرائزیشن کی راہ ہموار کر رہی ہے۔