Aaj Logo

شائع 03 اپريل 2024 07:44pm

اسرائیل نے فلسطین میں 7 برطانوی امدادی کارکن مار دیئے، لندن میں سفیر کی طلبی

اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے ممالک اسرائیلی فوج کی جانب سے خیراتی ادارے ”ورلڈ سینٹرل کچن“ کے امدادی کارکنوں کے قافلے پر فضائی حملہ کیے جانے کے بعد اس کے مخالف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس حملے میں برطانوی مسلح افواج کے تین سابق فوجیوں سمیت سات افراد مارے گئے تھے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کی طرف سے منظور شدہ راستے پر آگے بڑھتے ہوئے تین کاروں پر مشتمل قافلے، جن پر واضح طور پر انسانی ہمدردی کی تنظیم سے تعلق کے طور پر نشان لگایا گیا تھا، پیر کو فضائی حملے میں تباہ کردیا گیا۔

اسرائیل کے ان اقدامات نے بین الاقوامی مذمت کو جنم دیا ہے، اور احتساب کا مطالبہ کرنے والوں میں برطانیہ، امریکہ، پولینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دیگر مملاک بھی شامل ہیں۔

تباہ شدہ امدادی قافلے کے مسافروں میں برطانوی فوج کے سابق رائل میرین جیمز ہینڈرسن، ایس بی ایس کے سابق فوجی جان چیپ مین اور ان کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار برطانوی فوجی جیمز کربی شامل تھے۔

برطانیہ نے لندن میں اسرائیلی سفیر کو طلب کیا اور ہلاکتوں پر ’مکمل احتساب‘ کا مطالبہ کیا، سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے حملے اور ہلاکتوں کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

اسرائیل نے اسے ’سنگین غلطی‘ قرار دیتے ہوئے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

ڈیلی میل کے مطابق اندرونی ذرائع نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ برطانوی حکومت واقعے کے تمام حقائق سامنے آنے کے بعد اسرائیل کو اسلحے کی فروخت معطل کر سکتی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امدادی قافلے میں سات متاثرین ’انسانی ہمدردی کے کارکنوں کی اس ریکارڈ تعداد میں شامل ہیں جو اس مخصوص تنازعے میں مارے گئے ہیں۔‘

اپنے سخت الفاظ پر مشتمل بیان میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل نے ’امدادی کارکنوں کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جو شہریوں کو اشد ضروری مدد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے جوابدہی کے لیے ’تیز‘ تحقیقات کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول ’واحد واقعہ‘ نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پروفیسر بین ساؤل کا کہنا ہے ”ڈبلیو سی کے“ کارکنوں کا قتل جنگی جرم کہا جاسکتا ہے۔

اس دوران پولینڈ نے کہا کہ ’وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں سمیت شہریوں کے تحفظ کے فقدان سے اتفاق نہیں کرتا‘، پولینڈ نے ہلاک ہونے والے ڈبلیو سی کے عملے کے اہل خانہ کے لیے معاوضے کا مطالبہ بھی کیا۔

پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ مہلک حملہ اور اس واقعہ پر اسرائیلی حکومت کا ردعمل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ کر رہے ہیں۔

اسرائیلی رہنما بنجمن نیتن یاہو اور وارسا میں اسرائیل کے ایلچی کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے، ٹسک نے ایکس پر پوسٹ کیا، ’آج، آپ اس یکجہتی کو امتحان میں ڈال رہے ہیں۔ رضاکاروں کے خلاف افسوسناک حملہ اور آپ کا ردعمل قابل فہم غصہ پیدا کر رہا ہے۔‘

پوپ فرانسس نے ویٹیکن میں اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران ہلاکتوں پر اپنے ’گہرے دکھ‘ کا اظہار کیا ہے، اور کہا کہ ’میں ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے دعا گو ہوں۔‘

انہوں نے غزہ کی ’تھک جانے والی اور مصیبت زدہ شہری آبادی‘ کے لیے انسانی امداد تک رسائی اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے لیے اپنی اپیل کی تجدید کی۔

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک نے نیتن یاہو کو فون کیا جس میں انہوں کہا کہ وہ ان ہلاکتوں سے پریشان ہیں اور انہوں نے مکمل اور شفاف آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ میں اب تک بہت سارے امدادی کارکن اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور صورتحال ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’برطانیہ توقع کرتا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے انسانی امداد پر پابندیاں ختم کرنے، اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کے ساتھ تنازعات ختم کرنے، شہریوں کی حفاظت اور ہسپتالوں اور پانی کے نیٹ ورکس جیسے اہم انفراسٹرکچر کی مرمت کے لیے فوری کارروائی کی جائے گی‘۔

رشی سونک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’حماس کو شکست دینے کا اسرائیل کا مقصد غزہ میں انسانی تباہی کی اجازت دے کر حاصل نہیں ہو گا۔‘

دوسری جانب برطانوی قومی سلامتی کے سابق مشیر لارڈ پیٹر رکٹس نے آج بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ یہ اشارہ دیا جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اب اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل شہریوں کی حفاظت پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ خیال نہیں کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسلحے کی فروخت روکنے سے ایک ’طاقتور سیاسی پیغام‘ جائے گا جس سے امریکہ کے بارے میں بحث چھڑ سکتی ہے جو کہ ’اصل گیم چینجر‘ ہوگا۔

ماہرین کو توقع ہے کہ اسرائیل پر خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ بڑھے گا، جو اب چھ ماہ سے جاری ہے۔

Read Comments