پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے آٹھ ججز کو مشکوک خط موصول ہونے کا الزام مسلم لیگ (ن) پر لگا دیا۔ دوسری جانب ن لیگی رہنما خرم دستگیر نے ججز خط معاملے پر بنے کمیشن کی سبراہی سے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی معذرت کی ممکنہ وجہ بھی بیان کردی۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کی جانب سے تحقیقت مکمل کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ پچھلی بار 2017 میں جب ہم حکومت میں تھے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہماری حکومت کو منظم طریقے سے کمزور کیا جارہا ہے، 2017 کے دھرنے کا مقصد 2014 کے دھنرے کی طرح منتخب حکومت کو مفلوج کرنا تھا۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے کہا کہ اس سال کے وسط میں دھرنے کو 10 سال ہوجائیں گے، اگست 2014 میں دھرنا لانچ کرنے کا جو فیصلہ تھا، یہ کڑیاں وہاں جاکر ملیں گی کہ ’کس طرح ایک جماعت کو مقتدرہ کی سرپرستی حاصل ہوئی‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ آتی ہے اور اس میں یہ سفارش ہوتی ہے کہ ’کسی سابق ذمہ دار کو انصاف میں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تو کیا ہمارا نظام اس وقت اتنا توانا ہے کہ وہ اس کی حدت کو سہہ سکے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور مقننہ سمیت ریاست تقسیم کا شکار ہے، وزیراعظم شہباز شریف کے پاس موقع ہے کہ وہ تمام اداروں کے سربراہان کو بٹھائیں اور ان سے مشاورت کریں، کمیشنوں سے ان کی سفارشات یا کسی ایک ادارے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے ججز خط معاملے پر انکوائری کمیشن کی سربراہی سے انکار پر خرم دستگیر نے کہا کہ سوشل میڈیا جس طرح جسٹس تصدق جیلانی اور ان کی فیملی کو ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا تو کوئی بھی عزت دار آدمی اپنی عزت کیلئے کنارہ اختیار کرلیتا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئیر نائب صدر شیر افضل مروت نے خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن ملتوی کرنے کے حوالے سے کہا کہ خیبرپختونخوا کے ساتھ تعصب کی بنیاد پر زیادتی ہوئی ہے، الیکشن ملتوی کرانے کا مقصد پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہرانا تھا۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن ہوتا تو ہم چیئرمین شپ کیلئے الیکشن لڑتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کیوں خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلائیں، الیکشن کمیشن کا کام اسمبلی اجلاس بلوانا نہیں، اسمبلی اجلاس آئین کے تحت بلایا جاتا ہے، مخصوص نشستوں پر حلف نہیں ہوا اور یہ مخصوص نشستوں پر سینیٹ رمنتخب کروا رہے ہیں۔
شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے حکم کی عدولی ہورہی ہے، پشاور ہائیکورٹ نے اجلاس بلانے کا نہیں کہا، اسمبلی اجلاس ہوگا تو حلف برداری ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر ان کا حلف بنتا ہی نہیں ہے، ہماری مخصوص نشستیں ہمیں ہی ملنی چاہئیں، ہماری مخصوص نشستیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دی گئیں۔
سندھ، پنجاب میں بھی حلف ہوچکا ہے، خیبرپختونخوا میں حلف کیوں نہیں ہو رہا؟ اس سوال کے جواب میں شیر افضل مروت نے کہا کہ وہاں پر بھی ڈاکہ پڑا ہے، وہاں پر بھی حلف دلوا کر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بنا دیے گئے ہیں، خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، خیبرپختونخوا میں وہ ہوگا جو پی ٹی آئی کا فیصلہ ہوگا، الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا اسمبلی کو ہدایت جاری نہیں کرسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ساری کارروائی ڈالی ہی اسی لیے گئی ہے کہ ہمارے ممبرز کو سینیٹ الیکشن سے باہر رکھا جاسکے۔
ایک صوبے کی سینیٹ میں غیرموجودگی کی صورت میں سینیٹ الیکشن قانونی ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کا الیکشن پہلے کرواتے ہیں تو صوبہ مکمل مائنس ہوگیا، پھر یہ الیکشن چیلنج ہوں گے اس گراؤنڈ پر کہ ایک پورے صوبے کی اس الیکشن میں کوئی پارٹیسپیشن (شمولیت) ہی نہیں‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب بھی اسمبلی اجلاس ہوگا تو خواتین قانون کے مطابق حلف اٹھائیں گی۔
ججز خط معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ ججز کے خط سے متعلق فل کورٹ سماعت ہونی چاہئے، عدلیہ میں مداخلت دو سال سے ہو رہی ہے، عدالتوں سے من مانے فیصلے کروائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر فل کورٹ بن جائے تو بہتر ہے، لیکن موجودہ بینچ کا فیصلہ بحالت مجبوری قبول ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ آٹھ ججز کو دھمکی اور پاؤڈر والے خط عین متوقع تھے، ’مجھے ذاتی طور پر یہ فیل ہوتا ہے کہ اس میں ”ن“ کی شرارت ہوگی، کیونکہ یہ ایسی فتنہ گری کی عادی رہی ہے‘۔
جب ان سے کہا گیا کہ آپ بغیر ثبوت کے اتنا بڑا الزام لگا رہے ہیں تو اس پر شیر افضل مروت نے کہا کہ خان پر اتنے الزامات لگے اب آپ کو میرے لیے ثبوت کی ضرورت پڑ گئی، ثبوت میں دیتا ہوں، ن لیگ نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ پہلے بھی ججز سے متعلق گالم گلوچ کی جاچکی ہے، جسٹس بندیال پر بھی الزام تراشی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ یا تو بریف کیسوں سے کام چلاتے ہیں دشمنی سے کام چلاتے ہیں‘۔