اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں حکومتِ پاکستان اور وفاق کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ ججز سے جوڈیشل انکوائری کروائی جائے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ حکومتی کمیشن کی تشکیل کو کالعدم قرار دے اور خود ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ججز کو دھمکانے اور عدالتی امور میں مداخلت کے ذمہ داران کو مثالی سزا دی جائے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی تحقیقات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 3 حاضر سروس ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔
درخواست سینئیر قانون دان اعتزاز احسن کی جانب سے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دائر کی گئی، جس میں وزارت قانون اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا گیا، ججز کا کورٹ آف کنڈکٹ عدلیہ کے کام میں مداخلت کے بارے میں رہنمائی فراہم نہیں کرتا، ججز نے خط میں تحریر کیا ہے کہ کیا ججز کو ڈرانا خفیہ اداروں کی پالیسی ہے؟۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ججز کے خط کو خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا ثبوت تسلیم کیا جائے، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث خفیہ اداروں کے افراد کے تعین کے لئے کمیشن قائم کیا جائے، وفاقی حکومت ایسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث خفیہ اداروں کے تمام افراد کو نوکری سے برطرف کرے۔
واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔
خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔
اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مؤقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔
متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔
خط میں کہا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟
ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔
28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔
30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔
31 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ روز یکم اپریل کو جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔
خط میں تصدق حسین جیلانی نے لکھا تھا کہ ججوں نے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کیا ہے، لہٰذا یہ عدالتی وقار کی خلاف ورزی ہوگی کہ ایسے معاملے کی انکوائری کروں، جو سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
اسی روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِسربراہی 7 رکنی لارجر بینچ بدھ (3 اپریل) کو صبح ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔