Aaj Logo

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2024 10:09am

بچے سے زیادتی: پنجاب پولیس نے پنچائیت مسترد کردی، ملزم کیخلاف کارروائی کا اعلان

فیصل آباد کے علاقے تاندلیانوالہ میں کم سن بچے سے زیادتی کے مبینہ واقعے کے بعد ’پنچائیت‘ کے ذریعے معاملہ ختم کرنے کے واقعے پر پنجاب پولیس اعلی ترین سطح پر حرکت میں آگئی۔ پنجاب پولیس نے پیر کا اعلان کیا کہ پنچائیت کے ذریعے رہا ہونے والے ملزم کے کیس سے ’ڈس چارج‘ کو پراسیکوشن ڈیپارٹمنٹ چیلنج کرے گا اور غیرقانونی پنچائیتوں کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

نیشنل کمیشن آف چائلڈ رائٹس کی چیئر پرسن عایشہ رضا فاروق نے پنچائیت کے شرکا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل مولانا ابتسام الٰہی ظہیر نے سوشل میڈیا پر کہا کہ علماء کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والی لابی کو مولانا ابوبکر معاویہ کے بری ھونے پر بہت تکلیف ہے۔

تاندلیانوالہ میں بچے سے اس کے استاد کی مبینہ زیادتی کا واقعہ گذشتہ ہفتے سامنے آیا تھا جس کے بعد یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اسی دوران اس معاملے میں بعض شخصیات کی مداخلت اور ’صلح‘ ہونے کی اطلاعات آئیں۔

پیر کو اس معاملے پر پنجاب پولیس نے ایک بیان جاری کیا۔ بیان میں کہا گیاکہ تاندلیانوالہ میں کم سن بچے سے ریپ کی کوشش کے کیس میں متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کا دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے تاندلیانوالہ میں کم سن بچے سے زیادتی کی کوشش کے کیس میں ڈی آئی جی لیگل، ایس ایس پی انویسٹی گیشن فیصل آباد اور ایس پی صدر فیصل آباد کے ہمراہ متاثرہ بچے اور اس کے والد سے آج ملاقات کی۔ متاثرہ بچے کے والد کو ریاست کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا گیا،

’پنجاب پولیس نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ سے اس کیس کے حوالے سے مکمل مشاورت کی، جن کی سفارشات کےتحت پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس ملزم کی بریت کو چیلنج کرے گا کیونکہ اس کیس میں پنچایت کے دباؤ کے تحت ملزم کی رہائی ممکن ہوئی، ملزم کی رہائی کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ تفتیش کا عمل انجام کو پہنچ گیا ہے،

’ پنجاب پولیس متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کی طرف سے بغیر کسی امتیاز یا غیر قانونی سماجی دباؤ کے، متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کو یقینی بنائے گی۔’

اس کے ساتھ ہی نیشنل کمیشن آف چائلڈ رائٹس کی چیئرپرسن عایشہ رضا فاروق نے سماجی رابطی کی سائٹ ایکس پر ایک تھریڈ میں اس کیس سے متعلق لکھا کہ ’ ’پنچایت‘ میں شامل لوگوں کے خلاف اس گھناؤنے جرم کے ذمہ دار کے طور پر مقدمہ چلایا جائے متوازی عدلیہ اور غیر قانونی پنچایتوں کے بارے میں قانون بہت واضح ہے اور یہ شکایت کنندگان پر سماجی اور ذاتی اثر ڈال کر اس طرح کے سمجھوتے کروانے لوگوں کو تحفظ نہیں دیتا۔

پنجاب پولیس کی جانب سے یہ بیان سامنے آنے سے کچھ دیر قبل جمعیت اہلحدیث کے مولانا ابتسام الہی ظہیر نے ایک ٹوئیٹ کی۔

انہوں نے کہا کہ ’علماء کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والی لابی کو مولانا ابوبکر معاویہ کے بری ہونے پر بہت تکلیف ھے، ھمارا موقف پہلے دن سے واضح تھا کہ اگر مولانا مجرم ہوں تو انکا کڑا احتساب ھونا چاھیے اور اگر بے گناہ ھیں تو انکو باعزت بری ھونا چاہیے،

’نہ تو ڈی این اے ٹیسٹ مولانا کے خلاف آیا اور نہ ہی واقعاتی شہادتیں مولانا کے خلاف تھیں۔

’مولانا کے پاوں دبانے پر بچے کا والد غصے میں آیا بات تلخی سے ھوتی ھوئی جیل تک پہنچی بچے کے والد نے بھی اعلانیہ اقرار کیا کہ کیس جنسی زیادتی یا حراسیت کا نہیں،

’ہم ابھی بھی اپنی بات پر قائم ھیں کہ جنسی زیادتی ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے یا واقعاتی شہادت پیش کردیں مولانا کی سزائے موت کا مطالبہ کریں گے لیکن بلاثبوت کسی عالم کے ساتھ زیادتی کی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں یاد رھے کہ مولانا کا تعلق میری تنظیم سے نہیں نہ ھی میں بچے اور اسکے خاندان سے واقف ہوں۔

’مفت شور شرابے کا مقصد فقط دین اور علماء کو بدنام کرنا ھے جبکہ لبرل طبقے کے پاس مولانا کو مجرم ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ھے یاد رہے کہ جس طرح جنسی زیادتی ایک گھناونا جرم ھے اسی طرح بلاثبوت الزام تراشی بھی قابل نفرت جرم ہے۔‘

Read Comments