جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے انکارکردیا جبکہ انہوں نے بذریعہ خط فیصلے سے وزیراعظم شہباز شریف کو آگاہ کر دیا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات پر انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی۔
خط میں سابق چیف جسٹس نے لکھا کہ مناسب ہوگا چیف جسٹس ادارے کی سطح پر اس ایشو کا فیصلہ کریں، خود پر اعتماد کرنے پر وزیراعظم اور کابینہ کا مشکور ہوں، چیف جسٹس اور سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا بھی مشکور ہوں تاہم میں ذاتی مصروفیات کی بنا پر کمیشن کی سربراہی نہیں کرسکتا۔
خط کے متن میں جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ ججز نے خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا، سپریم جوڈیشل کونسل خودایک آئینی باڈی ہے، میرے لیے اس معاملے کی انکوائری کرنا جوڈیشل پروپرائرٹی کی خلاف ورزی ہوگی، اگرچہ ہائیکورٹ ججز کا خط پوری طرح آئین کے آرٹیکل 209 کا بھی نہیں بنتا، چیف جسٹس ادارہ جاتی سطح پر اس معاملے کو بہتر حل کر سکتے ہیں۔
جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن کے ٹی او آرز معاملے سے صحیح مطابقت نہیں رکھتے، ججزنے خط میں ادارہ جاتی مشاورت کی بات کی تھی۔
وفاقی حکومت نے 30 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا تھا۔
وفاقی کابینہ نے ججز کے الزامات پر انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دی تھی، جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے معاملے کی تحقیقات کرنا تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے خط پر حکومت نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مشاورت کے بعد کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ان الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کے بعد، پی ٹی وی کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ کمیشن بنانا وفاقی کابینہ کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے بھی انکوائری کمیشن پر رضا مندی ظاہر کی ہے، ججز کا خط لکھا جانا مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں، یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔
اعظم تارڑ نے کہا تھا کہ اس کمیشن کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے گا، ہر وقت افواج پاکستان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، جب جب ادارے اپنے دائرہ کار سے نکل کر کام کرتے ہیں خرابی پیدا ہوتی ہے، یہاں چیف جسٹس صاحبان نے بے شمار سوموٹو نوٹس لیے لیکن جو سیاستدان ان کے زیر عتاب رہے وہ اب پھر سامنے ہیں اور جج صاحبان غائب ہو چکے ہیں، کمیشن قانون کے مطابق 60 دن میں رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہے۔
خیال رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے 2 مرتبہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا، پہلے فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کی عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے 25 مارچ 2024 کو سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔