دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بظاہر مودی سرکار کی طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کو سبق سکھانے اور منہ رکھنے کی مہم کا شکار ہوئے ہیں۔ 21 مارچ کو گرفتاری کے بعد اروند کیجریوال کو اب عدالت کا سامنا ہے۔
مرکزی تحقیقات ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے دہلی کی ایک عدالت سے دو بار اُن کا ریمانڈ منظور کروایا ہے۔ دوسرا ریمانڈ یکم اپریل کو ختم ہو رہا ہے جس پر اُنہیں پھر عدالت کے رو بہ رو لایا جائے گا۔**
نریندر مودی نے سابق حکمراں جماعت کانگریس کو کرپٹ، اشرافیہ کی حامی اور عوام کی دسترس سے دور قرار دے کر اپنی پارٹی کو مضبوط بنایا تھا مگر اروند کیجریوال، جو کانگریس کے اتحادی ہیں، مودی سرکار کے لیے خاصے سخت جان ثابت ہوئے ہیں اور جُھکنے کو تیار نہیں۔
کیجریوال پر شراب کی لائسنسنگ کے معاملے میں ’ساؤتھ گروپ‘ کو پورے دہلی میں شراب کی فروخت کا کُلی اختیار دینے کے حوالے سے مجموعی طور پر 600 کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے۔ ان پر تحقیقات میں معاونت نہ کرنے کا بھی الزام ہے۔ یاد رہے کہ گرفتاری کے لیے چھاپہ مارتے وقت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی ٹیم کو کیجریوال کے گھر سے صرف 75 ہزار روپے ملے تھے۔
برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے ’ویک اینڈ پروفائل‘ میں لکھا ہے کہ اروند کیجریوال مودی سرکار کی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ کرپشن کے خلاف بھی تحریک چلاتے رہے ہیں۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو مکمل طور پر خاموش اور غیر موثر کرنے کے لیے بے بنیادی الزامات کے تحت تفتیش اور عدالتی کارروائیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
کانگریس نے بی جے پی پر ’ٹیکس ٹیرراِزم‘ کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ تحقیقات کے نام پر پارٹی کے بینک اکاؤنٹ منجمد کردیے گئے ہیں۔
23 جماعتوں پر مشتمل بی جے پی مخالف اتحاد ’انڈیا‘ نے دو دن قبل اعلان کیا تھا کہ وہ اروند کیجریوال کی رہائی کے لیے ہفتے (31 مارچ) کو دہلی کی سڑکوں پر احتجاج کرے گی۔ اس احتجاج کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانے والا ہے کہ 19 اپریل کو شروع ہونے والی انتخابی مہم میں اروند کیجریوال کو بھی حصہ لینے کا موقع دیا جائے۔
دی اکنامسٹ لکھتا ہے کہ اگر اروند کیجریوال کرپشن کے الزام کے تحت بھارتی سیاست میں اور عوامی سطح پر اپنے کردار سے محروم ہوگئے تو یہ بھارت کے لیے بہت بڑا المیہ ہوگا۔ انجینیرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ ریٹائرڈ سول سرونٹ ارودن کیجریوال نے کرپشن کے خلاف تحریک چلاکر بھارتی سیاست میں منفرد شناخت قائم کی ہے۔
اروند کیجریوال نے 10 سال سے بھی زائد مدت تک دہلی کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں اور اس دوران اُنہوں نے اچھی حکمرانی عمدہ مثالیں قائم کی ہیں۔ اُن کے دورِ حکومت میں دہلی کے غریبوں کو بہت سی بنیادی سہولتیں انتہائی کم نرخوں پر میسر ہوئی ہیں۔ سرکاری محکموں کی کرپشن پر بہت حد تک قابو پاکر کیجریوال نے عام آدمی کو پُرسکون انداز سے جینے کے قابل بنانے پر بہت محنت کی ہے۔
مرکزی حکومت نے عام آدمی پارٹی کے پرچم تلے قائم دہلی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے گھناؤنی سازشیں کی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی حکمرانی کو نیچا دکھانے اور غیر موثر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔
اروند کیجریوال کے نائب یعنی دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سِسوڈیا کو بھی کرپشن کے الزامات کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جاچکا ہے۔ مینش سِسوڈیا کے ساتھ مل کر اروند کیجریوال نے دہلی کے سڑے ہوئے تعلیمی نظام کی اوور ہالنگ کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ دہلی کے تعلیمی نظم و نسق کی اب بھارت بھر میں مثال دی جاتی ہے۔ انہوں نے دہلی میں صحتِ عامہ کا نظام بہتر بناکر بھی انتہائی پس ماندہ طبقے کی خدمت کی ہے۔
کرپشن کے خلاف شاندار تحریک چلانے اور منفرد شناخت قائم کرنے کی پاداش میں اروند کیجریوال انتہا پسند ہندوؤں پر مبنی مودی سرکار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے ساتھیوں سے یہ برداشت نہیں ہو پارہا کہ اُن کا کوئی مخالف کرپشن کے خلاف کامیاب ہو اور خود بھی کرپشن کے الزام سے کم و بیش مکمل طور پر پاک ہو۔ انتخابات نزدیک آنے پر بی جے پی نے اروند کیجریوال اور دیگر مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔