پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل، سانحہ مشرقی پاکستان، ضیاء الحق طیارہ حادثہ یا پھر اسامہ بن لادن کیلئے ایبٹ آباد آپریشن، سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کئی کمیشن قائم ہوئے، رپورٹس مرتب ہوئیں، لیکن کئی منظر عام پر نہ آئیں تو کئی پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا۔
ماضی میں سپریم کورٹ ججز کی سربراہی میں کئی بڑے کمیشن بنے جس میں حالیہ اضافہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا ایک رکنی کمیشن ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرے گا۔
لیکن کیا یہ کمیشن نتیجہ خیز ہوگا؟ کیا اس کا کوئی فائدہ ہوگا؟ اس کا نتیجہ ماضی میں بنے کمیشنز نے اخذ کیا جاسکتا ہے۔
اکتوبر1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا، جس پر جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں کمیشن تو بنا، لیکن اس کی رپورٹ بیگم رعنا لیاقت علی خان سمیت دیگر نے مسترد کردی۔
دسمبر 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان سے متعلق کمیشن تشکیل دیا گیا، جسٹس حمود الرحمٰن نے سقوط ڈھاکا کی رپورٹ دوسال یعنی 1974 میں مکمل کی، لیکن مکمل رپورٹ آج تک مںظر عام پر نہ آسکی۔
1992 میں ضیاء الحق طیارہ حادثہ کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنا، اسی سال رپورٹ بھی مرتب ہوئی۔ لیکن وہ رپورٹ بھی منظرعام پر نہیں لائی گئی۔
1996 میں مرتضی بھٹو قتل کیس میں عدالتی کمیشن بنا، اس کے باوجود نہ کسی ملزم کی نشاندہی ہوئی اور نہ کوئی پکڑا گیا۔
مئی 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن ہوا، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد اسامہ بن لادن کمیشن بنایا گیا، کمیشن نے جنوری 2013 میں رپورٹ اس وقت کے وزیراعظم پرویز اشرف کو پیش کی، لیکن یہ رپورٹ بھی منظرعام پر نہ آسکی۔
جون 2014ء سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کمیشن تشکیل دیا گیا، تاہم رپورٹ پرعملدرآمد تاحال نہ ہوسکا۔
2012ء میں میمو گیٹ کمیشن جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں بنایا گیا، جس نے رپورٹ میں کہا کہ میمو فریب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
2015 میں تحریک انصاف کی الزمات پر اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنایا گیا، جس میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان بھی شامل تھے، اس کمیشن نے منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا۔