امریکہ نے اسرائیل کو بموں اور لڑاکا طیاروں سمیت ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ کی منتقلی کی اجازت دی ہے، اس اقدام سے واقف دو ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے رفح میں متوقع اسرائیلی فوجی کارروائی کے بارے میں عوامی طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک پورٹ کی تصدیق کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ ہتھیاروں کے نئے پیکجز میں 1800 ایم کے-84 2,000 پاؤنڈ بم اور 500 ایم کے-82 500 پاؤنڈ بم شامل ہیں۔
واشنگٹن اسرائیل کو سالانہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے۔
یہ پیکج ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کو غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی حملوں پر سخت بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے اور جو بائیڈن کی پارٹی کے کچھ ارکان نے ان سے امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ اسرائیل کو فضائی دفاع اور گولہ بارود فراہم کررہا ہے، لیکن کچھ ڈیموکریٹس اور عرب امریکی گروہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مستقل حمایت پر تنقید کی ہے۔
ہتھیاروں کے بارے میں یہ فیصلہ اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے رواں ہفتے واشنگٹن کے دورے کے بعد کیا گیا ہے جہاں انہوں نے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ اسرائیل کی ہتھیاروں کی ضروریات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
منگل کے روز نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے گیلنٹ نے کہا کہ انہوں نے اپنے ملک کی سلامتی کے لیے امریکی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور خطے میں اسرائیل کی ’معیاری فوجی برتری‘ بشمول اس کی فضائی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد ہوا تھا۔صحت کے حکام کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں اب تک 32 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔