ای پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز نے ایران سے بڑے پیمانے پر اسٹیل کی اسمگلنگ اور انڈرانوائسنگ کی بحالی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے وزیر خزانہ کو خط لکھا ہے۔
وزیرخزانہ کو لکھے گئے خط میں ایسوسی ایشن کی جانب سے زور دیا گیا ہےکہ اسمگلنگ، غلط بیانی اور انڈر انوائسنگ مقامی اسٹیل انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے، اور اسےانتہائی منظم طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اسٹیل انڈسٹری بڑے پیمانے پر روپے کی قدرمیں کمی، سب سے زیادہ مالی لاگت، اور بجلی کے بلند ترین نرخوں کے ساتھ ساتھ ان پٹ لاگت میں نمایاں اضافے کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
نتیجتاً بہت سی اسٹیل ملیں اپنے آپریشنز بند کر چکی ہیں اور دیگر اپنی گنجائش کے ایک چھوٹے سے حصے پر کام کر رہی ہیں جبکہ بہت سی مزید بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔
پی اے ایل ایس پی مقامی اسٹیل انڈسٹری کی بحالی کے لیے کام کرنے والی معروف ایسوسی ایشن ہے۔
اسٹیل پگھلانے کی صنعت اسٹیل انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی ہے جسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور اسمگلنگ کے خطرے کی وجہ سے اس کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔
اس مشکل وقت سے نمٹنے کا متبادل تلاش کرنے کے لیے اسٹیل انڈسٹری کے سرکردہ کھلاڑی چین کو نان فیرس مصنوعات (تانبے کے انگوٹس) کی برآمدات میں تنوع پیدا کر رہے ہیں، اور یہ شعبہ 2023-24 میں 1.350 بلین ڈالر کی برآمدات کے ساتھ پانچویں سب سے بڑے برآمدی شعبے کے طور پر ابھرا ہے.
پی اے ایل ایس پی کا ایک رکن تانبے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور بہت سے دیگر اسی طرح کے اہداف کی کوششوں میں ہیں۔
پی اے ایل ایس پی کو خدشہ ہے کہ منظم مافیا کی طرف سے بلا روک ٹوک اسمگلنگ کی صورت میں اسٹیل انڈسٹری کے سرکردہ افراد کی طرف سے چین کو تانبے کی مصنوعات کی برآمد کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
توقع کی جارہی ہے کہ حکومت کی جانب سے کچھ سہولتوں کے ساتھ تانبے کی برآمد مختصر مدت میں دوسرا سب سے بڑا برآمدی شعبہ بن سکتی ہے۔
پی اے ایل ایس پی نے متنبہ کیا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیاں رک گئی ہیں اور اسٹیل کی طلب کم ترین سطح پر ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں پوری قوت کے ساتھ اسٹیل کی اسمگلنگ ایک خطرناک پیش رفت ہے جو اسٹیل سیکٹر کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے بھی مزید تباہی کا باعث بننے جا رہی ہے۔
پی اے ایل ایس پی نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کا تسلسل ان محکموں اور ایجنسیوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے جو سرحدوں پر کسٹم چیک پوسٹوں پر درآمدات کی نگرانی کرنے کے لیے تعینات ہیں اور کسی بھی قسم کے غلط کام کو روکنے کے پابند ہیں۔
پی اے ایل ایس پی نے کہا کہ تقریبا 500،000 میٹرک ٹن اسٹیل بنیادی طور پر ایران (افغانستان کے راستے) سے پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے، جو ملک میں پیدا ہونے والے کل اسٹیل کا تقریبا 10 فیصد ہے۔
دوسری جانب گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران سالانہ 0.5 ملین میٹرک ٹن سے 10 لاکھ میٹرک ٹن نیا (پگھلنے کے بغیر دوبارہ قابل استعمال) / اسٹیل (قابل تصدیق شواہد کے مطابق / برآمد کنندہ ممالک کی طرف سے اعلان کردہ) کسٹم حکام کی جانب سے اسکریپ قرار دے کر پاکستان لایا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایران اور باقی دنیا سے اسٹیل کی اسمگلنگ اورمِس ڈیکلئیریشن کے نتیجے میں قومی خزانے کو سالانہ تقریبا 40 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اس سے منی لانڈرنگ سے متعلق معاملات میں ط مضمرات پیدا ہوسکتے ہیں ، کیونکہ پاکستان اور ایران کے پاس اس مقصد کے لئے کوئی باضابطہ بینکنگ چینل نہیں ہیں۔
اسٹیل اسمگلنگ کی لعنت کی وجہ سے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مقامی اسٹیل انڈسٹری کا صفایا ہو چکا ہے۔
بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سے زائد اسٹیل ایران سے اسمگلنگ، غلط بیانی، انڈر انوائسنگ اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے آتا ہے۔
پی اے ایل ایس پی کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ/ غلط بیانی ایک منظم جرم ہے جو پاکستان کو اس صنعت سے پاک کرنے کی طرف دھکیل رہا ہے۔
ناقص مانیٹرنگ/ کنٹرول اور متعلقہ افراد کی ملی بھگت کی وجہ سے اسمگل شدہ اسٹیل کی رسائی صرف بلوچستان تک محدود نہیں، یہ ملک کے بڑے حصوں جیسے کہم لاہور، کراچی اور دیگر تک پہنچ رہا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ، پی اے ایل ایس پی نے وزارت سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف سمندری راستوں کے ذریعہ اسٹیل کی درآمد کو محدود کرے۔ اس اقدام سے کم از کم ایران سے اسمگلنگ (اور افغانستان کے راستے ایرانی اسٹیل کی اسمگلنگ) کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔
فروری 2024 میں ساکریپ کی درآمد کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 20,000 میٹرک ٹن سے زیادہ اسٹیل پلیٹیں جو پگھلنے کے بغیر دوبارہ قابل استعمال ہیں، انہیں دبلوچستان، خاص طور پر تفتان کے مختلف سرحدی مقامات کے ذریعے ری رول ایبل اسکریپ قرار دے کر درآمد کیا گیا تھا۔
انڈر انوائسنگ کے باعث قوی امکان ہے کہ اصل مقدار سرکاری طور پر اعلان کردہ مقدار سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔