پاکستان میں فارما سیکٹر کی لسٹیڈ کمپنیوں کی آمدنی میں جنوری 2023 سے دسمبر 2023 کے دوران 42 فیصد (7 ارب 90 کروڑ روپے) تک کمی واقع ہوئی۔ یہ بات بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے بتائی۔
فارما سیکٹر کے اداروں کی آمدنی میں گراوٹ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک طرف فائنانس کی لاگت بڑھ گئی ہے اور دوسری طرف منافع کمانے کی گنجائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں بلند آمدنی (بلند قیمتوں کی بدولت 17 فیصد اضافے یعنی 27 ارب 45 کروڑ روپے) کے باوجود فارما سیکٹر کے ادارے گراس مارجن برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔
یاد رہے کہ مئی 2023 میں حکومت نے فارما سیکٹر کے اداروں کو صرف ایک بار بنیادی اہمیت کی حامل دواؤں کی زیادہ سے زیادہ قیمتِ فروخت میں کنزیومر پرائس انڈیکس کے 70 فیصد تک اضافے (14 فیصد کی حد کے ساتھ) کی منظوری دی۔
دیگر دواؤں کی زیادہ سے زیادہ قیمتِ فروخت کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق (20 فیصد کی حد کے ساتھ) بڑھانے کی منظوری دی گئی۔ اس کا مقصد روپے کی قدر میں کمی کے اثرات زائل کرنا تھا۔
دواؤں کی قیمت میں اضافے کے باوجود فارما کمپنیاں خام منافع برقرارکھنے میں ناکام رہیں۔ 2022 میں خام منافع 30 فیصد تھا جو 2023 میں 26 فیصد رہ گیا۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی، افراطِ زر کی اوسط شرح 31 فیصد اور فائنانس کی لاگت میں 55 فیصد (7 ارب 70 کروڑ روپے) اضافے کے باعث فارما کمپنیوں کی آمدنی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے اور منافع کمانے کی صلاحیت گھٹ گئی۔
سیلز اور انتظامی اخراجات میں بالترتیب 20 اور 17 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ افراطِ زر کی کیفیت کے مطابق تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2024 میں حکومت نے ناگزیر نہ سمجھیجانے والی دواؤں کی ڈی ریگیولیشن کی مںظوری جس کے نتیجے میں فارما کمپنیوں کے منافع میں اضافے کی توقع ہے، بالخصوص ناگزیر نہ قرار پانے والی دوائیں فروخت کرنے والی کمپنیوں کے لیے۔ اس صورت میں فارما کمپنیاں لاگت میں اضافے کی صورت میں کسی حد کا سامنا کیے بغیر قیمتِ فروخت بڑھاسکیں گی۔