غزہ میں خوراک کی قلت نے انتہائی سنگین شکل اختیار کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرنے والی عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ خوراک کی ترسیل کے لیے غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے۔
برطانوی اخبار گارجین کی ریک رپورٹ کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف کے ججوں نے مکمل اتفاقِ رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر خوراک کی فوری ضرورت ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ سے اشتراکِ عمل کرتے ہوئے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں۔ غزہ کے شہریوں کو خوراک، ایندھن اور توانائی کی فوری ضرورت ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل سے کہا ہے کہ غزہ کے باشندوں تک خوراک کی فوری ترسیل یقینی بنائی جائے اور اس کے لیے تمام ناگزیر اقدامات کیے جائیں۔
متعدد عالمی اداروں نے اسرائیل پر غزہ میں قتلِ عام اور نسلی تطہیر کا الزام عائد کیا ہے۔ اسرائیل نے قتلِ عام کے الزام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی طرف سے طاقت کا استعمال اپنے دفاع کے لیے ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی قرارداد کے مطابق کہا کہ حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا اہتمام کرے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ غزہ میں امداد جانے دے رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ، امریکا اور عالمی اداروں کے حکام کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی حکومت 23 لاکھ کی آبادی والے علاقے غزہ میں پریشان حال لوگوں تک زندگی بچانے کی امداد کی ترسیل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ کے لیے بھیجی جانے والی امداد کی ہر شپمنٹ کا معائنہ لازم ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ حماس اس کا فائدہ نہ اٹھائے۔ مصر سے غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی بھی تلاشی لی جاتی ہے جبکہ مصر سے اسرائیل نے دوستی اور امن کا معاہدہ کر رکھا ہے۔
امدادی سامان کی ترسیل اور تقسیم پر مامور حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام جان بوجھ کر معائنے میں تاخیر کرتے ہیں اور بلا جواز رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں جس کے باعث غزہ کے پریشان حال لوگوں کو بروقت امداد پہنچانا ممکن نہیں ہوتا اور ان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی امدادی سامان کے بھرے ہوئے ٹرکوں کو کلیئرنس کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیلی حکام نے عالمی عدالتِ انصاف کے حکم کے حوالے سے کوئی باضابطہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔