بھارتی ریاست یوپی کی جیل میں زہر دے کر قتل کیے جانے والے مسلمان سیاستدان مختار انصاری کو مودی کا حامی بھارتی میڈیا ’گینگسٹر‘ لکھ رہا ہے۔ لیکن دیگر کروڑوں مسلمانوں کی طرح مختار انصاری بھی اپنے بڑوں کی بھارت سے وفاداری کی قیمت چکا رہے ہیں۔
مختار انصاری کے دادا جن کا نام بھی مختار احمد انصاری تھا 1927 میں کانگریس کے صدر تھے۔ اپنی نوجوانی کے دنوں میں مسلم لیگ سے وابستہ رہنے والے بڑے مختار انصاری نے راستہ بدل کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ قیام پاکستان کے مخالف ہوگئے تھے۔ مختار احمد انصاری 1936 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر بنے اور تاحیات چانسلر رہے۔
بھارتی جیل میں مارے گئے مختار انصاری کا ننھیال بھی بھارت کا کچھ کم وفادار نہیں تھا۔ ان کے نانا بریگیڈیئر جنرل محمد عثمان نے پاکستان کے خلاف 1948 کی جنگ لڑی تھی اور اسی جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس پر انہیں بھارت کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز مہا ویر چکر دیا گیا تھا۔
لیکن پرکھوں کی بھارت سے وفادار مختار انصاری کے کچھ کام نہ آئی۔ بھارت میں ہندوتوا کا زور بڑھا تو جہاں دیگر لاکھوں مسلمان دہشت گرد قرار پائے وہیں مختار انصاری کو بھی گینگسٹر قرار دے دیا گیا، وہ 2005 سے جیلیں بھگت رہے تھے۔
1960 میں یوسف پور میں پیدا ہونے والے مختار انصاری کو 1996 سے اب تک پانچ مرتبہ رکن اسمبلی کا رکن منتخب ہونا بھی کام نہیں آیا۔
بانڈا جیل میں مختار انصاری کے مارے جانے کے بعد بھارتی میڈیا اب ان کے بیٹے عباس انصاری کے پیچھے پڑ گیا ہے اور انہیں نیا گینگسٹر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عباس ماؤ صدر کے حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں لیکن ان پر مقدمے درج کردیئے گئے ہیں۔
مختار کی اہلیہ افشاں، چھوٹے بیٹے عمر اور بڑے بھائی افضل کے خلاف بھی تیزی سے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
افشاں انصاری جو اپنی بعض تصاویر میں ماتھے پر بندی لگائے نظر آتی ہیں پر بھی گینگ چلانے کا الزام ہے۔