یورپی یونین نے نئے ڈیجیٹل قانون کے تحت ایپل، گوگل اور میٹا کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق یورپی یونین نے ڈیجیٹل قانون کے تحت پہلی بار بڑے پیمانے پر ایپل، گوگل اور میٹا کے خلاف تحقیقات شروع کردیں۔ جس کے نتیجے میں امریکی کمپنیوں کے خلاف بڑے جرمانے عائد کیے جا سکتے ہیں۔
یورپی یونین کے تاریخی ڈیجیٹل مارکیٹس ایکٹ کے تحت مارکیٹ ’گیٹ کیپر‘ کے طور پر نامزد چھ کمپنیوں میں ایمیزون، ٹک ٹاک کے مالک بائٹ ڈانس اور مائیکروسافٹ شامل ہیں۔
یورپی یونین کے انٹرنل مارکیٹ کمشنر تھیری بریٹن نے کہا، ہمیں یقین نہیں ہے کہ الفابیٹ، ایپل اور میٹا کے حل یورپی شہریوں اور کاروباری اداروں کے لئے منصفانہ اور زیادہ اوپن ڈیجیٹل جگہ کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرتے ہیں۔
یورپی یونین کے اینٹی ٹرسٹ ریگولیٹر یورپی کمیشن نے تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسے شبہ ہے کہ کمپنیوں نے اب تک جو اقدامات کیے ہیں وہ ’مؤثر تعمیل سے کم ہیں۔‘
دوسری طرف ٹیکنالوجی لابنگ کے اہم گروپوں میں سے ایک سی سی آئی اے، جس کے ارکان میں تین بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں، اس نے یورپی یونین کے تحقیقات کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جلد بازی پر مبنی اور بغیر سوچے سمجھے کیا جانے والا کام ہے۔
یورپی یونین کے مسابقتی کمشنر مارگریٹ ویسٹیگر نے معاملے پر زور دے کر کہا کہ ریگولیٹرز نے یقینی طور پر کمپنیوں کی تحقیقات کے لیے جلد بازی نہیں کی۔
خیال کیا جارہا ہے کہ نئے قوانین کے تحت کمیشن کسی کمپنی کے مجموعی عالمی ٹرن اوور کا 10 فیصد تک جرمانہ عائد کر سکتا ہے، اور اسے 20 فیصد تک بڑھایا بھی جاسکتا ہے، جب کہ انتہائی حالات میں، یورپی یونین کمپنیوں کو توڑنے کا حکم دے سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ہونے والی تحقیقات کی توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ آیا الفابیٹ کا گوگل پلے اور ایپل کا ایپ اسٹور ایپ ڈویلپرز کو ان ایپ مارکیٹوں سے باہر صارفین کو مفت آفرز دکھانے کی اجازت دے رہے ہیں یا نہیں۔
کمیشن کو خدشہ ہے کہ دونوں کمپنیوں نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ مکمل طور پر مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ وہ ”مختلف پابندیاں اور حدود“ عائد کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یورپی یونین نے 2017 میں گوگل پر 2.4 بلین یورو (2.6 بلین ڈالر) کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
گوگل کے ڈائریکٹر آف کمپیٹیشن اولیور بیتھل کا کہنا تھا کہ گوگل نے یورپ میں اپنی سروسز کے کام کرنے کے طریقے میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ جب کہ ایپل کا کہنا ہے کہ اسے ’یقین‘ ہے کہ اس کا منصوبہ ڈی ایم اے کی تعمیل کرتا ہے۔