بکری، گائے، بھینس اور اونٹنی کا دودھ تو ہر دوسرے گھر میں شوق سے استعمال کیا جاتا ہے، تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں گدھی کے دودھ کو بروائے کار لایا جاتا ہے۔
غیر ملکی ہیلتھ ویب سائٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے، کہ گدھی کا دودھ اب کئی طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے، اسے اسکن کئیر ٹریٹمنٹ کے طور بھی جبکہ دہی اور چیز میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسکن ہائیڈریشن کے لیے گھدی کا دودھ بہترین اجزاء میں شمار کیا جاتا ہے، دوسری جانب یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسے ’فارما فوڈ‘ کا نام دیا گیا ہے، جو کہ مدافعتی نظام کو بوسٹ دینے میں مدد کرتا ہے، سرکیولیشن کو بھی بہتر بنا سکتا ہے اور ضیابطیس 2 کی علامات کو بھی کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اٹلی کے ریسرچ ادارے پب میڈ سینٹرل کی جانب سے 81 الرجی سے متاثرہ بچوں پر ایک تحقیق کی گئی تھی، جس میں بچوں کو گائے اور گدھی کا دودھ پلایا گیا۔ بچوں کی جانب سے یہ کہنا تھا کہ وہ گائے کے دودھ کے مقابلے میں گدھی کے دودھ کو فوقیت دیںگے۔
گائے کا دودھ پینے والے بچوں نے جب گدھی کا دودھ پیا، تو انہیں کوئی منفی اثرات سامنے نہیں آئے، جبکہ اس تحقیق کے مطابق روزانہ کے وزن اور قد بڑھانے میں بھی گدھی کا دودھ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ترکیہ کے مقامی خبر رساں ادارے ٹوڈے زمان نے ترکیہ کے پہلے ڈنکی فارم کے مالک سے بات چیت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ گدھی کا دودھ بریسٹ ملک کے قریب تر سمجھا جاتا ہے، میں نے اس حوالے سے وزیر صحت سے پرمشن مانگی ہے، کہ میں گدھی کا دودھ ان بچوں کے لیے بیچوں جن کے والدہ انہیں فیڈ نہیں کر پاتی ہیں۔
یہ انٹرویو 2012 میں لیا گیا تھا، تاہم اب ترکیہ میں گدھی کے دودھ کو اسکن کئیر کے لیے ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب استنبول کی ہالج ہونی ورسٹی کی آصلی آکسوائے نے اپنے ریسرچ میں دعویٰ کیا کہ والدہ جب نومولود بچے کو فیڈ کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی تو بصورت دیگر بکری، گائے یا گدھی کا دودھ ہی متبادل غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جبکہ اکنامکس ٹائمز میں پبلش ہونے والی رپورٹ کے مطابق البانیہ ملک میں گدھی کے دودھ کی ڈیمانڈ میں اضافہ دیکھا گیا۔
اے ایف پی سے بات چیت میں طالبہ کلیا یمری جو کہ ایگرو ماحولیاتی انجینئر نگ کی طالبہ ہیں، بتاتی ہیں ان کے والدین جب کورونا میں مبتلا تھے، تو وہ والدین کو گدھی کے دودھ کی 250 ملی میٹر کی بولتیں دیا کرتی تھیں، جس سے وہ صحت یاب ہوئے۔
طالبہ کے مطابق وہ اس دودھ کو میڈیسن کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ نطام تنفس کے لیے بھی قدرتی ریمیڈی قرار دیتے ہیں۔
جبکہ برطانیہ میں 19 ویں صدی میں گدھی کے دودھ کو بریسٹ ملک کے متبادل کے طور پر فروخت کیا جاتا تھا۔